8%

تیسرا نکتہ :

اعتراض کرنے والا کون ہے ؟

ابتدائی دنوں میں کہ جب دعائے ندبہ قابل توجہ منابع میں جیسے المزار الکبیر ، المزار القدیم ،الاقبال ،مصباح الزائر اور بحار الانوار وغیرہ میں نقل ہوئی اور عاشقین و قارئین کی دست رس میں قرار پائی تو خاندان عصمت و طہارت کے عقیدت مندوں نے بغیر کسی خوف کے جمعہ کے دنوں میں صبح کے وقت اور دوسری اسلامی عیدوں میں اس کے پڑھنے کی طرف سبقت حاصل کی اور سبقت کرتے رہتے ہیں ،کوئی شک و شبہ بھی نہیں رکھے کہ اس کا متن امام معصوم سے صادر ہوا ہے ، اس کا زمانہ غیبت میں پڑھنا شیعہ منتظر کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی خاص عنایت و توجہ کا مرکز ہے ۔ اس طریقے سے ،علمائے اعلام اور اسلام کے پاسبانوں نے اس کی سند کے متعلق بحث و تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔یہاں تک کہ تقریباً تیس سال پہلے ایک کتابچہ بغیر کسی نام و نشان کے ”بررسی دعائے ندبہ “ (یعنی دعائے ندبہ کی تحقیق) کے نام سے ایک نامعلوم مولف جس کا مستعار (دوسرے سے مانگاہوا) نام ”علی احمد موسوی“ ہے تہران میں نشر ہوا کہ جس نے اس کی سند میں شک و شبہ کا اظہار کیا ،اس کے مطالب پر ناجواں مردانہ دھاوا بول دیا تھا۔ اس لحاظ سے عہد کیے ہوئے علماء اور درد آشنا پاسبانوں نے خود کو ذمہ دار سمجھا کہ اس ناجواں مردانہ دھاوا بولنے والے کو بغیر جواب دیے خاموش نہیں بیٹھیں گے ،لہٰذا دعائے ندبہ کی سند، متن اور دوسرے مختلف پہلوؤوں سے دفاع سے متعلق بہت سی گراں قدر کتابیں تحریر کیں اور اس کے کھوکھلے اعتراضات کا جواب دیا کہ اس کے بعض عناوین سے آپ اس کتاب میں آشنا ہوں گے ۔