25%

جمع ہو کر خاص سوز و گداز کے ساتھ اس دعا کو پڑھتے ہیں اور اپنے محبوب اور ہر دل عزیز سے اپنے راز دل کو بیان کرتے ہیں نیز اپنے بہترین لحن اور یابن الحسن کے نغموں کی صدائے بازگشت کو بہت زیادہ نورانی اور معنوی فضا میں سنتے ہیں ، ساتوں آسمان کے فرشتوں کو گواہ بناتے ہیں کہ غیبت کی تاریک شب سے عاجز اور تھک چکے ہیں اور صبح ِامید کے اشتیاق میں لحظہ شماری کر رہے ہیں ۔

امام محمد باقر آیہ کریمہ

( و اللیل اذا یغشیٰ و النهار اذا تجلیّٰ ) (۱)

”رات کی قسم جب وہ دن کو ڈھانپ لے اور دن کے قسم جب وہ چمک جائے ۔ “

کی تفسیر میںفرمایا:

”اس جگہ ”و اللیل اذا یغشیٰ “ سے مراد باطل حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں امیر المومنین کی ولایت و خلافت کے مقابلے میں قیام کیا ،عرصہ عالم کو اپنی جولان گاہ قرار دیا اور ”والنھار اذا تجلیٰ “سے مراد ہم اہل بیت میں سے امام قائم کے ظہور کا دن ہے کہ جب وہ ظہور کریں گے تو باطل حکومتوں کا صفحہ ہستی سے خاتمہ ہو جائے گا۔“(۲)

________________________

۱۔ سورہ لیل (۹۲) آیت ۱،۲۔

۲۔ تفسیر القمی، علی بن ابراہیم قمی، ج۲، ص ۴۲۵۔