نجاشی نے ان کا لقب ”قنّائی “ذکر کیا ہے ،لیکن علامہ حلّی نے انہیں کبھی ”قنّائی“ اور کبھی ”قنّابی“ سے تعبیر کیا ہے ۔(۲) اور ان کی وثاقت کو ثابت کیا ہے(۳) اور نمازی علیہ الرحمہ کہتے ہیں:
”تمام اہل رجال کا ان کی وثاقت پر اتفاق ہے ۔“(۴)
۳ ۔ محمد ابن جعفر ابن علی ابن جعفر مشہدی حائری
ابن مشہدی چھٹی صدی ہجری کے ایک جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے جو تقریباً ۵۱۰ ھئق میں پیدا ہوئے اور ۵۸۰ ھء ق سے پہلے دنیا سے رحلت کر گئے ۔
صاحب معالم نے اجازہ کبیرمیں ان کے اساتذہ کی مخصوص تعداد کو شمار کیا ہے کہ منجملہ ان میں سے یہ ہیں: ورّام(صاحب مجموعہ ورّام) ، شاذان ابن جبرئیل ،ابن زہرہ، ابن شہر آشوب وغیرہ ۔(۵)
ان کی گراں قدر کتاب بطور یادگار موجود ہے جو مزار کبیر اور مزار ابن مشہدی سے مشہور ہے خوش نصیبی سے اس کے بہت سے خطی نسخے ہمارے زمانے تک محفوظ رہے ہیں :
________________________
۱۔ رجال نجاشی ،ص۳۹۸۔
۲۔ ایضاح الاشتباہ ،حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی)،ص۲۶۶،۲۸۷۔
۳۔ رجال(خلاصہ ) حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی) ،ص۱۶۴۔
۴۔ مستدرکات علم رجال الحدیث ،شیخ علی نمازی ،ج۷،ص۲۵۱۔
۵۔ طبقات اعلام الشیعہ ،قرن ششم آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۵۲۔