صحيح شکوک
مسئلہ ١٢٠٧ اگر کسی کو چار رکعتی نماز کی تعداد کے بارے ميں شک ہو تو نو صورتوں ميں ضروری ہے کہ غور وفکر کرے اور احتياط واجب کی بنا پر فکر کرنے ميں تا خير نہ کرے۔ پس اگر اسے شک کی کسی ایک طرف کے بارے ميں یقين یا گمان ہو جائے تو ضروری ہے کہ اسی طرف کو اختيار کرے اور نماز کو ختم کرے ورنہ آنے والے احکام کے مطابق عمل کرے:
اور وہ نو صورتيں یہ ہيں :
١) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين،اس صورت ميں ضروری ہے کہ تين رکعت پر بنا رکھتے ہوئے ایک رکعت اور پڑھ کر نماز کو مکمل کرے۔ نيز نماز کے بعد ایک رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر بجا لائے۔
٢) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا چار رکعتيں،کہ اس صورت ميں اگرچہ اس اختيار کی بھی گنجائش ہے کہ یا نئے سرے سے نماز پڑھے یا چار پر بنارکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرکے نماز احتياط بجا لائے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کرے اور بعد ميں دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر بجا لائے۔
٣) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين یا چار، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نمازمکمل کرے اور بعد ميں دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر اور پھر دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے۔
۴) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ چار رکعتيں پڑھی ہيں یا پانچ، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکملکرے اور بعد ميں دو سجدہ سهو بجا لائے۔
ليکن اگر نماز ی کو پهلے سجدے کے بعد یا دوسر ے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے سے پهلے مذکورہ چار شکوک ميں سے کوئی ایک شک پيش آجائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔
۵) نماز کے دوران کسی وقت بھی تين اور چار رکعت کے درميان شک ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکمل کرے اور مشهور قول کے مطابق بعد ميں ایک رکعت نمازِ احتياط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ دو رکعت بيٹھ کر بجا لانے کو اختيار کرے۔