3%

ہو تو زکات واجب نہيں ہو گی اور اگر مرنے والے کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ جس مال پر زکات واجب ہو اسے تمام مال کی نسبت دیکھاجائے جيسے آدهی ایک تھائی یا ایک چوتھائی وغيرہ کی نسبت اور اسی نسبت سے (قرضے کی مقدار)زکات والے مال سے نکالی جائے اور باقی وارثوں ميں تقسيم کر دیا جائے اور اس کے بعد اب جس وارث کا حصہ نصاب کی حد تک پهنچے گا اس پر زکا ت واجب ہوگی۔

مسئلہ ١٩١٢ اگر جس گندم،جو،کھجور اور کشمش پر زکات واجب ہو چکی ہو اس ميں گھٹيا اور اعلیٰ دونوں قسميں ہوں تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اعٰلی قسم کی زکات گھٹيا قسم سے نہ دے۔

سونے اور چاندی کا نصاب

مسئلہ ١٩١٣ سونے کے دو نصاب ہيں :

١) سونے کا پهلا نصاب ٢٠ مثقال شرعی ہے کہ جس کا ہر مثقال ١٨ چنے کے برابرہے جو بنا بر مشهورصيرفی (معمولی) مثقال کا تين چوتھائی ہے ،لہٰذا جب سونے کی مقدار ٢٠ مثقال شرعی،جو ١ ۵ مثقال صيرفی ہوتا ہے ،تک پهنچ جائے تو باقی شرائط کے ہوتے ہوئے جن کا تذکرہ گزرچکا ۴ ٠ )جو ٩چنے کے برابر ہوتا ہے ،زکات کی بابت دے / ہے ،انسان پر ضروری ہو کہ چاليسواں حصہ( ١اور اگر سونا اس مقدار تک نہ پهنچے تو ا س کی زکات واجب نہيں ۔

٢) سونے کا دوسرا نصاب ۴ مثقال شرعی ہے جو تين مثقال صيرفی (معمولی)هوتاہے ،یعنی اگر پندرہ مثقال پر تين مثقال کا اضافہ ہو جائے تو پورے اٹھ ارہ مثقال کی زکات چاليسویں حصے کے اعتبار سے دینا ضروری ہے اور اگر تين مثقال سے کم کا اضافہ ہو تو صرف پندرہ مثقال کی زکات دے دے اور اس سے زیادہ پر زکات نہيں ۔ اسی طرح جس قدر اضافہ ہوتا جائے یعنی اگر پورے تين مثقال کا اضافہ ہو تو ضروری ہے کہ سارے سونے کی زکات دی جائے اور اگر اس سے کم کا اضافہ ہو تو جتنی مقدار کا اضافہ ہو اس پر زکا ت نہيں ۔

مسئلہ ١٩١ ۴ چاندی کے دو نصاب ہيں -:

١) چاندی کا پهلا نصاب ١٠ ۵ صيرفی (معمولی) مثقال ہے یعنی اگر چاندی کی مقدار ١٠ ۵ مثقال تک پهنچے اور گذشتہ باقی تما م شرائط بھی موجود ہوں تو انسان پر واجب ہے کہ اس کا چاليسواں حصہ جو دو مثقال اور پندرہ چنے کے برابر ہوتا ہے ، زکات کی بابت دے اور اگر اس مقدار تک نہ پهنچے تو اس کی زکات واجب نہيں ۔