بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ا
َلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلاَمُ عَلیٰ ا شَْٔرَفِ اْلا نَْٔبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّيِّبِيْنَ
الطَّاهِرِیْنَ لاَ سِيِّمَا بَقِيَّةِ اللّٰهِ فِي اْلا رََٔضِيْنَ، وَ اللَّعْنَةُ الدَّائِمَةُ عَلٰی ا عَْٔدَائِهِمْ اَجْمَعِيْنَ
تقليد کے احکام
مسئلہ ١انسان کے لئے ضروری ہے کہ اصولِ دین اسلام پراس کے عقيدے کی بنياد یقين پر ہو۔
اصول دین ميں تقليد یعنی یقين حاصل کئے بغير کسی کی پيروی کرنا، باطل ہے ، ليکن احکام دین ميں ضروری اور قطعی امور اور اسی طرح وہ موضوعات جو دليل کے محتاج ہيں ، کے علاوہ ضروری ہے کہ:
١)یا خود مجتهد ہو کہ اپنی ذمہ داریوں کو دليل کے ساته جان سکے۔
٢)یا کسی ایسے مجتهدکے احکامات پرعمل کرے(تقليد کرے)جس کی شرائط کاتذکرہ آئندہ بيان ہوگا۔
٣)یا احتياط کرتے ہوئے اپنا فریضہ اس طرح انجام دے کہ اسے اپنی ذمہ داری پوری ہونے کا یقين ہوجائے مثلاً اگر چند مجتهد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسروں کا کهنا ہو کہ حرام نہيں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر کسی عمل کو بعض مجتهد واجب اور بعض جائز سمجھتے ہوں تو اس عمل کو بجالائے، لہٰذا جو اشخاص نہ تو مجتهد ہوں اور نہ ہی احتياط پر عمل پيرا ہوسکيں ان کے لئے واجب ہے کہ تقليد کریں۔
مسئلہ ٢گذشتہ ميں بيان کی گئی چيزوں ميں تقليد کامطلب یہ ہے کہ کسی مجتهد کے فتوے پر عمل کيا جائے اور مقلدکے لئے ایسے مجتهد کا قول حجّت ہے جو:
١) مرد
٢) عاقل
٣) شيعہ اثناء عشری
۴) حلال زادہ
۵) زندہ : اگرچہ مقلد نے مميز ہونے کے زمانے ميں مجتهد کو پایا ہو
۶) عادل
٧) بنا بر احتياط واجب بالغ ہو۔