11%

ملحقات

بينک سے مربوط مسائل

بينک کی دو قسميں ہيں :( ١)اسلامی بینک( ٢)غیر اسلامی بینک اسلامی بينک کی تین صورتيں ہيں :

١) پرائيویٹ بینک

٢) سرکاری بینک

٣) سرکاری اور عوامی مشترکہ بینک اظہر يہ ہے کہ سرکاری اور مشترکہ بینکوں سے جائز معاملات کرنا صحيح ہے گرچہ احوط ہے کہ ان دونوں بینکوں سے رقم نکالنے اور اسے استعمال کرنے کے سلسلے ميں حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٩ اسلامی بینکوں سے سود و فائدہ کی شرط کے ساته قرض لینا یا انہيں قرض دینا سود اور حرام ہے ليکن انسان چند صورتوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو سود سے بچا سکتا ہے مثلاً قرض لینے والا بينک یا اس کے وکيل سے کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد مثلاً ١٠ یا ٢٠ فيصد زیادہ قيمت پر خریدے اور يہ شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا یا مثلاً يہ کہ بينک یا اس کے وکيل کو کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد کمتر قيمت پر بيچے اور شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا۔

اسی طرح بينک کو قرضہ دینے کے سلسلے ميں بھی اسی طریقے پر عمل کرسکتا ہے مثلاً يہ کہ بينک کوئی چيز بازاری قيمت سے زیادہ پر اس شخص سے خرید لے یا کوئی چيز بازاری بهاؤ سے کم قيمت پر اسے بيچ دے اور يہ شرط رکھے کہ وہ شخص ایک خاص مدت تک بينک کو قرضہ دے گا۔

یهی نتائج اجارہ، مصالحت اور قرض کی شرط والے هبہ سے بھی حاصل کئے جاسکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ ٠ سابقہ مسئلہ ميں بيان ہوا کہ بينک کو قرض دینے کا حکم بينک سے قرض لینے کی مانند ہے اور اگر قرض کی قرارداد ميں سود وفائدہ کی شرط ہو تو يہ ربا اور حرام ہے اور اس سلسلے ميں جمع کروائی ہو یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس Fixed Deposit Account ميں فرق نہيں ہے کہ رقم ميں پےسہ رکھوانے والا معاملے کے مطابق ایک خاص مدت تک اپنی رقم کو استعمال نہيں کرسکتا ہے یا ميں یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس ميں پےسہ رکھوانے والا ہر وقت اپنی رقم کو Current Account

استعمال کرسکتا ہے البتہ اگر سود کی شرط نہ لگائے اور اپنے آپ کو سود کی رقم کا حقدار نہ سمجھے تو اگرچہ بينک اسے سود دے پھر بھی ایسے بينک ميں رقم رکھوانا جائز ہے ۔