سورہ مدثر
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
(۱) اے میرے کپڑا اوڑھنے والے
(۲) اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ
(۳) اور اپنے رب کی بزرگی کا اعلان کرو
(۴) اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو
(۵) اور برائیوں سے پرہیز کرو
(۶) اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار بن جاؤ
(۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو
(۸) پھر جب صور پھونکا جائے گا
(۹) تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا
(۱۰) کافروں کے واسطے تو ہر گز آسان نہ ہوگا
(۱۱) اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے
(۱۲) اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے
(۱۳) اور نگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دیئے ہیں
(۱۴) اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دے دی ہے
(۱۵) اور پھر بھی چاہتا ہے کہ اور اضافہ کردوں
(۱۶) ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا
(۱۷) تو ہم عنقریب اسے سخت عذاب میں گرفتار کریں گے
(۱۸) اس نے فکر کی اور اندازہ لگایا
(۱۹) تو اسی میں مارا گیا کہ کیسا اندازہ لگایا
(۲۰) پھر اسی میں اور تباہ ہوگیا کہ کیسا اندازہ لگایا
(۲۱) پھر غور کیا
(۲۲) پھر تیوری چڑھا کر منہ بسور لیا
(۲۳) پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور اکڑ گیا
(۲۴) اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے
(۲۵) یہ تو صرف انسان کا کلام ہے
(۲۶) ہم عنقریب اسے جہنمّ واصل کردیں گے
(۲۷) اور تم کیا جانو کہ جہنمّ کیا ہے
(۲۸) وہ کسی کو چھوڑنے والا اور باقی رکھنے والا نہیں ہے
(۲۹) بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے
(۳۰) اس پر انیس فرشتے معین ہیں
(۳۱) اور ہم نے جہنمّ کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور ان کی تعداد کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے کہ اہل کتاب کو یقین حاصل ہوجائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوجائے اور اہل کتاب یا صاحبانِ ایمان اس کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں مرض ہے اور کفار یہ کہنے لگیں کہ آخر اس مثال کا مقصد کیا ہے اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اس کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے یہ تو صرف لوگوں کی نصیحت کا ایک ذریعہ ہے
(۳۲) ہوشیار ہمیں چاند کی قسم
(۳۳) اور جاتی ہوئی رات کی قسم
(۳۴) اور روشن صبح کی قسم
(۳۵) یہ جہنمّ بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے
(۳۶) لوگوں کے ڈرانے کا ذریعہ
(۳۷) ان کے لئے جو آگے پیچھے ہٹنا چاہیں
(۳۸) ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے
(۳۹) علاوہ اصحاب یمین کے
(۴۰) وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کررہے ہوں گے
(۴۱) مجرمین کے بارے میں
(۴۲) آخر تمہیں کس چیز نے جہنمّ میں پہنچادیا ہے
(۴۳) وہ کہیں گے کہ ہم نماز گزار نہیں تھے
(۴۴) اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے
(۴۵) لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے
(۴۶) اور روزِ قیامت کی تکذیب کیا کرتے تھے
(۴۷) یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
(۴۸) تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی
(۴۹) آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں
(۵۰) گویا بھڑکے ہوئے گدھے ہیں
(۵۱) جو شیر سے بھاگ رہے ہیں
(۵۲) حقیقتا ان میں ہر آدمی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اسے کِھلی ہوئی کتابیں عطا کردی جائیں
(۵۳) ہرگز نہیں ہوسکتا اصل یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں ہے
(۵۴) ہاں ہاں بیشک یہ سراسر نصیحت ہے
(۵۵) اب جس کا جی چاہے اسے یاد رکھے
(۵۶) اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے
سورہ قیامت
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
(۱) میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں
(۲) اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں
(۳) کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے
(۴) یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں
(۵) بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے
(۶) وہ یہ پوچھتا ہے کہ یہ قیامت کب آنے والی ہے
(۷) تو جب آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی
(۸) اور چاند کو گہن لگ جائے گا
(۹) اور یہ چاند سورج اکٹھا کردیئے جائیں گے
(۱۰) اس دن انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کا راستہ کدھر ہے
(۱۱) ہرگز نہیں اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے
(۱۲) اب سب کا مرکز تمہارے پروردگار کی طرف ہے
(۱۳) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے پہلے اور بعد کیا کیا اعمال کئے ہیں
(۱۴) بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے
(۱۵) چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے
(۱۶) دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں
(۱۷) یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں
(۱۸) پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں
(۱۹) پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے
(۲۰) نہیں بلکہ تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو
(۲۱) اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو
(۲۲) اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے
(۲۳) اپنے پروردگار کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے
(۲۴) اور بعض چہرے افسردہ ہوں گے
(۲۵) جنہیں یہ خیال ہوگا کہ کب کمر توڑ مصیبت وارد ہوجائے
(۲۶) ہوشیار جب جان گردن تک پہنچ جائے گی
(۲۷) اور کہا جائے گا کہ اب کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے
(۲۸) اور مرنے والے کو خیال ہوگا کہ اب سب سے جدائی ہے
(۲۹) اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی
(۳۰) آج سب کو پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا
(۳۱) اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی
(۳۲) بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا
(۳۳) پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا
(۳۴) افسوس ہے تیرے حال پر بہت افسوس ہے
(۳۵) حیف ہے اور صد حیف ہے
(۳۶) کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ اسے اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے گا
(۳۷) کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتا ہے
(۳۸) پھر علقہ بنا پھر اسے خلق کرکے برابر کیا
(۳۹) پھر اس سے عورت اور مرد کا جوڑا تیار کیا
(۴۰) کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مفِدوں کو دوبارہ زندہ کرسکے