33%
پيش گفتار قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان

تاليف: آیت الله الحاج شيخ رضا توحيدی عليہ الرحمہ
ترجمہ: حجة الاسلام و المسلمين فيروز حيدر فيضی


پيش گفتار بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم الحمد للّٰہ ربّ العالمين، و صلّی اللّٰہ علی سيّدنا محمّد وآلہ اجمعين، سيّما الامام الحجة
القائم المنتظر المهدی (عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف)۔
) >یَااٴَیُّہَا العَْزِیزُ مَسَّنَا وَاٴَہلَْنَا الضُّرُّ وَجِئنَْا بِبِضَاعَةٍ مُزجَْاةٍ> (یوسف/ ٨٨
اے عزیز فاطمہ! اے یوسفِ زہرا! جان ليوا درد نے مجه کو اور مجه جيسے انسان کو گهيرليا ہے اور اب ہم اپنی بی بضاعتی کے ساته آپ کی طرف آئے ہيں۔
اب تک حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے متعلق تين ہزار سے زائد ہمارے درميان گراں قدر کتابيں تحریر کی جاچکی ہيں، جس ميں حضرت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں ، عظمت، شخصيت، سيرت، اوصاف، شباہتيں ، ملاقاتيں، انتظار،اشتياق دیدار، اظہار عقيدت، لائحہٴ عمل، عدل و انصاف وغيرہ جيسے دوسرے مسائل جو الٰہی حجّتوں کا بقية الله، مصلح عالم، یوسفِ زہرا، حضرت بقية الله ارواحنا فداہ ہے اس کے بارے ميں تحقيق ہوچکی ہے۔
ان مطالب کے درميان بہت سے ناگفتہ مطالب اور جدید موتياں مل جائيں گی جو سلف صالح کی مورد توجہ نہيں قرار پائيں، از باب “کم ترک الاوّل للآخر” یعنی پہلے زمانہ کے لوگوں نے آخری زمانہ والوں کے ليے کتنی باتيں چهوڑ دیں۔ انہيں آئندہ نسلوں کے سپرد کيا ہے۔ منجملہ ان ناگفتہ مطالب ميں سے قرآن اور حجّت زمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے درميان موجودہ شباہتيں ہيں کہ اس اہم اور گراں قدر بحث کی تنظيم و ترتيب کی توفيق ایک بزرگ عالم اور عظيم فقيہ جو ناموس دہر حضرت امام عصر عجل الله فرجہ الشریف کے آستانہٴ مقدس کے دل دادہ اور عاشق دلباختہ کو نصيب ہوئی ہے۔
ان عالم بزرگوار نے دراز مدت تک بہت ہی صبر و حوصلہ کے ساته اس بحث کی تحقيق و جستجو کی دسيوں شباہت اور نزدیکی و قرابت قرآن کریم اور اس کے ہم پلہ شریک حضرت صاحب الزمان کے درميان تلاش کی،ان ميں سے ہر ایک کی قرآنی آیات اور ائمہٴ معصومين کے عظيم اقوال سے استناد کرتے ہوئے تفصيلی تحقيق کی اور ان کے درميان جدید اور گراں قدر نکات پيش کيے ہيں۔

موٴلف کا مختصر تذکرہ: اس مقام پر قارئين کرام کو موٴلف بزرگوار کی زندگی سے آشنائی کے ليے استاد گراں قدر آیت الله الحاج مرزا عمران علی زادہ ( ١) صاحب کی تحریر کو یہاں ذکر کر رہے ہيں: آیت الله آقائے الحاج شيخ رضا توحيدی، فرزند محمد علی ابن عبد الحسين، تبریز کے مشہور علماء ميں سے تهے جو صفات جميلہ اور اخلاق حميدہ کے حامل اور تقویٰ و اخلاص سے متصف تهے۔
موصوف ١٣٣٢ ئه ق ميں ایک متدیّن اور پاکيزہ گهرانے ميں تبریز ميں پيدا ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیت الله الحاج مرزا عمران علی زادہ (متولد ١٣۵٠ ه ق= ١٣١٠ ش) ایک عالم فرزانہ ، (
دانشمند، ممتاز فقيہ شائستہ استاد اور تعلقات کی قيد سے آزاد انسان تهے، جو روشن ستارہ کی طرح آسمان علم و فضيلت ميں چمک رہے تهے اور مکتب حضرت امام جعفر صادق - کو معارف اہل بيت کے صاف و شفاف چشمے سے سيراب کر رہے تهے۔ یہ خدمت گزار عالم ۵٠ سال سے مسند تدریس پر فائز تهے اور حوزئہ علميہ تبریز ميں تقریباًنصف صدی ميں بہت سے فاضل طلاب کی تربيت کی، انہيں مختلف حوزہ ہای علميہ ميں روانہ کيا اور حوزہ ہای علميہ کی ادبيات کو مزید رونق بخشی اس گراں قدر استاد کی دسيوں اہم کتابيں جو تحریر کی گئيں ہيں ان ميں سے ایک پُر ثمر کتاب “نامداران تاریخ” ہے کہ اس کے آخری حصہ ميں آذر بائيجان کے ہم عصر بعض بزرگوں کا منجملہ آیت الله توحيدی(رہ) کا بغير کسی مبالغہ آرائی کے تعارف کرایا ہے۔ دوران طفوليت ایک حکومتی مدرسہ ميں جو علماء کی نظارت ميں ادارہ ہوتا تها وہاں آڻهویں کلاس تک گزارا، پهر مقدمات اور سطوحِ عاليہ کے بعض حصہ کو تبریز ميں مندرجہ ذیل اساتيد عظام کے پاس حاصل کيا:
١ (فاضل دانيارانی، ٢) الحاج سيد اسماعيل سجادی، ٣) الحاج مير عبد الله کماری (رضوان الله عليہم) سے پڑها۔
١٣۶٣ ئه ميں تحصيلات عاليہ کی تکميل کی غرض سے حوزہٴ نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور ٢۵ سال تک مقدس آستانہٴ علوی ميں سکونت حاصل کی نيز مندرجہ ذیل آیات عظام سے استفادہ کيا:
١ (مکمل درس خارج صلاة الحاج آقائے رضا ہمدانی، عروہ کی بحث اجارہ اور حج کو آیت الله سيد محمود شاہرودی سے حاصل کيا۔ ٢ (فقہ و اصول اور اخلاق کی بہت سی بحثوں کو آیت الله سيد محمد ہادی ميلانی سے کسب کيا۔
٣ (آیت الله نائينی کی تقریرات کو آیت الله شيخ حسين حلی کے پاس پڑها۔ ۴ (پهر آیت الله الحاج سيد ابو القاسم الخوئی، آیت الله سيد محسن حکيم، آیت الله سيد حسين حمامی اور آیت الله سيد ابراہيم اصطهباناتی سے کسبِ فيض کيا۔
آیت الله توحيدی (رہ) ١۶ سال کی مدت تک نجف اشرف کی مساجد ميں سے ایک مسجد ميںنماز جماعت اور دینی تعليمات کے فرائض انجام دیتے رہے۔
موصوف ١٣٨٩ ء ه ق ( ١٣۴٨ ش) ميں اپنے آبائی وطن تبریز واپس آئے اور خيابان نادری (اول کوچہ باغ) ميں قيام پذیر ہوئے ، راتوں کو مسجد توحيد اور ظہرین ميں مسجد (باد کوبہ ای) بازار کفاشان ميں نماز جماعت اور مومنين کی ہدایت کے فرائض انجام دیتے تهے۔ آیت الله توحيدی (رہ) کو الحاج سيد محمد ہادی ميلانی، الحاج سيد محمود شاہرودی، سيد عبد الہادی شيرازی، سيد محسن حکيم، الحاج سيد کاظم شریعت مداری اور الحاج سيد ) ابو القاسم خوئی (رضوان الله عليہم) کا اجازہ حاصل ہے۔ ( ١ قارئين کرام کی مزید اطلاع کے ليے آیت الله توحيدی کی حيات کے دوسرے پہلوؤں کے بعض نکات بطور اختصار ذکر کيے جارہے ہيں:
١۔ مذکورہ اساتيد کے علاوہ، آیت الله توحيدی نے قدیمی حوزہٴ نجف اشرف کے ابتدائی دنوں ميں دو سال تک عالمِ تشيّع کے عظيم زعيم مرحوم آیت الله الحاج سيد ابو الحسن اصفہانی جو صفحات تاریخ کے ليے باعث افتخار ہيں ان کے درس سے استفادہ کيا۔ ٢۔ مولف کے نجف اشرف ميں دوسرے اساتيد، آیت الله مرزا احمد اہری، آیت الله الحاج مرزا محمد علی علمی اردبيلی اور آیت الله الحاج مرزا باقر نعيمی خرازی بهی قابل ذکر ہيں۔ ٣۔ مولف کی منجملہ سعادتوں ميں سے ایک یہ تهی کہ ایک چوتهائی صدی ( ٢۵ سال) کی مدت تک اپنی صدی کی بے نظير شخصيت خادم الحجہ مرحوم الحاج شيخ محمد کوفی کی مصاحبت کا شرف حاصل کيا اور ان سے عقد اخو ت منعقد کيا تها۔ اس طریقہ سے حضرت صاحب الزمان عجل الله فرجہ الشریف کی بارگاہ ميں ہميشہ ان کے دل کے سياہ نقطہ ميں عشق تپاں شعلہ ور رہتا ہے اور اپنے محبوب کی یاد سے شب و روز دل کو مانوس اور مصروف بنا رکها ہے جيسا کہ اس کتاب کے درميان بهی آپ اس بات کا مشاہدہ کریں گے۔
۴۔ آیت الله الحاج شيخ محمد شوشتری، جو “کوفی” کے نام سے مشہور اور نہر کوفہ کے نزدیک قيام پذیر تهے نيز حضرت بقية الله ارواحناہ فداہ کے متعلق اپنے زمانے کے خوش بخت ترین انسانوں ميں سے تهے کيونکہ متعدد مرتبہ امامت کے روشن آفتاب کی خدمت ميں شرفياب ہوئے تهے اور آپ کے متعلق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔نامدارن تاریخ، عمران علی زادہ، مطبوعہ تبریز، ١٣٨٠ ء ش ج ٢، ص ٣٠٧ ۔ (
) اس سلسلہ ميں یہ بات تمام شيعہ بزرگوں نے تسليم کی ہے۔ ( ١ ۵۔ شيخ محمد کوفی وہی سعادت مند انسان تهے جو حضرت ولی عصر عجل الله فرجہ ) الشریف کی طرف سے آیت الله اصفہانی کا پيغام بهيجنے کے ليے مامور کيے گئے تهے۔ ( ٢ ۶۔ ایک دن حضرت آیت الله مرزا کاظم تبریزی صاحب (متوفی، ١۴١۶ ء ه ق) کی خدمت اقدس ميں مرحوم شيخ محمد کوفی صاحب کے متعلق ميں نے دریافت کيا تو کہا: ایک دن ہم نجف اشرف سے مسجد سہلہ کوفہ کی طرف جارہے تهے، گاڑی کهڑی تهی یہ انتظار کر رہے تهے کہ وہ بهر جائے، شيخ کوفی کو علماء ميں سے ایک عالم جو ابهی مشہد مقدس ميں رہتے ہيں انہيں ان کے ساته دیکها کہ پاپيادہ مسجد سہلہ کی طرف جارہے ہيں۔ ان کے دوستوں ميں سے ایک شخص نے خواہش ظاہر کی کہ وہ گاڑی پر سوار ہوجائيں ليکن شيخ کوفی نے کہا: ہم پيدل جائيں گے۔
جب گاڑی بهر گئی تو ہم چلنے لگے اور ان دونوں بزرگوار وں کی طرف سے گزرے ليکن جب مسجد سہلہ پہنچے تو ہم نے انہيں تعجب اور حيرت سے دیکها کہ وہ لوگ ہم سے پہلے غير عادی اور فوق العادت طریقے سے وہاں موجود ہيں اور مسجد سہلہ کے بہت سے اعمال بهی انجام دے چکے ہيں!!
آیت الله تبریزی رحمة الله عليہ کہ جن کے ليے مثال دی جاتی ہے کہ وہ زود باور نہيں ہيں وہ اس بات سے مطمئن تهے کہ انہوں نے اس راستہ کو طی الارض کے ذریعے طے کيا تها۔ )٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اس قسم کے متعدد شرف حضور کو اجمالاً فصل نامہ انتظار ، شمار ۶، (زمستان، ١٣٨١ ( ٣۵٠ ميں ہم نے ذکر کيا ہے۔ ، ش) ص ٣۴٨
٢(۔پيغام کے متن کے حصول کے ليے رجوع کریں: آیت الله الحاج شيخ مرتضیٰ حائری، سرِّ ( دلبراں، ص ٢٧٣ ، الامام المہدی، ج ١، ص ۵۶۴ ، حسن شيرازی، آثار الحجہ۔ مرحوم شریف رازی، ج ١، ص ١٣۴ ، گنجينہٴ دانشمندان، مرحوم شریف رازی، ج ١ ، ص ٢٢٢ ، مولف، فصل نامہ انتظار، شمارہ ۶، ص ٣۴٩ ۔
٣(۔ سينای معرفت، ص ١٢٩ ۔ از قول مولف۔ (
٧۔ ان کے ہمراہ حضرت آیت الله الحاج شيخ محمد رضا بخارانی رحمة الله عليہ متوفی ) ٧شعبان ١۴٢۴ ء ه ق بهی تهے۔ ( ١
مولف کہتے ہيں: بخارانی رحمة الله عليہ کی رحلت سے چند مہينے پہلے مشہد مقدس ميں ان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا اور ان سے اس واقعہ کے متعلق ميں نے دریافت کيا تو انہوں نے کوفی رحمة الله عليہ کے بارے ميں تصریح کی وہ طی الارض جانتے تهے ليکن تواضع اور انکساری کی وجہ سے اپنے ليے انکار کرتے تهے! ٨۔ موٴلف بزرگوار، ایک نامور فقيہ، ایک خدمت گزار عالم ، ایک بے قرار عاشق، ایک ارزش مند محقق، ایک پرہيز گار عالم، ایک عالی قدر دانشور ہيں جو آسمانِ تبریز کے علم و فضيلت کے سب سے زیادہ درخشاں ستارے اور محکم ترین علمی بلند پایہ عالم شمار ہوتے ہيں۔
وہ آج بهی اس پيرانہ سالی اور ضعيفی ميں دو مورچہ محراب اور منبر ميں ایک جانباز سپاہی کی طرح، جوانوں کی تعليم و تربيت ، نونہالوں کی ہدایت و رہنمائی ، ائمہٴ معصومين کے علوم و معارف کی تبليغ و ترویج اور تمام لوگوں کی علمی سطح کو بلند کرنے نيز انہيں جان جاناں تمام عالم کے سيد و سردار حضرت ولی عصر امام زمانہ - روحی و ارواح العالمين لہ الفداء سے آشناء کرانے کے ليے شب و روز مصروف و منہمک ہيں۔
٩۔ شہادتِ حضرتِ فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کے دن کہ جس سال پہلی مرتبہ عمومی عزاداری اور لوگوں کو پابرہنہ شارع عام پر چلنے کا دو عظيم مراجع حضرت آیت الله الحاج شيخ حسين وحيد خراسانی حفظہ الله اور آیت الله الحاج مرزا جواد تبریزی رحمة الله عليہ نے حکم دیا تها ( ٢) اسی طرح اُس دن انجمنوں کے افراد آیت الله توحيدی حفظہ الله کے اشارہ سے تبریز ميں کافی شان و شوکت کے ساته سرگرم عمل ہوکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آپ کی سوانح حيات ، مجلہ ٴ نگاہ مشہد۔ ج ٩٨ ۔ ٩٩ ميں “مشاہير خراسان” کے عنوان کے ( تحت نقل ہوئی ہے۔
٢(۔ سال ١۴٣٠ ئه ق ( ١٣٧٨ ش) سے یہ عمومی عزاداری جو قم کے گرم روڈ پر شہزادی حضرت ( فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کے زخمی سينے کے مصائب و آلام کو محسوس کرنے کے ليے تمام مراجع کرام کے گهروں سے آغاز ہوکر حرم مطہر حضرت معصومہ سلام الله عليہا پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
) عمومی عزاداری مناتے ہيں۔ ( ١ ١٠ ۔ آیت الله توحيدی حفظہ الله مذہبی شعائر کی تعظيم و تکریم کے ليے خاص اہتمام کرتے ہيں، ایّام عيد ميں رسمی طور پر جشن سرور منعقد کرتے ہيں جس ميں شعرائے اہل بيت اشعار پڑهتے ہيں اور محفل ميں شرکت کرنے والوں کی تبریز کی بہترین مڻهائيوں اور بہترین موسمی پهلوں سے پذیرائی اور مہمان نوازی ہوتی ہے۔
ایّام عزا بالخصوص ایّام فاطميہ ميں بهی آپ کے حسينيہ ميں شان و شوکت کے ساته مجالس منعقد ہوتی ہيں اور شہر کے بعض مشہور خطبائے کرام حاضرین کو اپنے بيانات سے مستفيض کرتے ہيں۔
١١ ۔ مولف عالی قدر ہميشہ اعتقادی انحرافات سے شدّت سے مقابلہ کرتے ہيں اور اس راستہ ميں اپنے ليے ہر خطرے کو مول ليتے ہيں۔ چند سال پہلے ان دنوں ميں کہ جب کسی ایک ہاسپيڻل ميں داخل تهے، ان کے ڈاکڻروں کی ڻيم کا ایک شخص جو صوفيوں کا سربراہ تها ان کے مخصوص کمرے ميں داخل ہوتا ہے اور ان سے تصوف کے بارے ميں سوال کرتا ہے، موصوف کسی کی پروا کيے بغير صوفيوں کے انحرافات کو ایسے یاد دلاتے ہيں، یہ نشست تقریباً نصف شب تک چلتی رہی ليکن اسی رات صوفيوں کی طرف سے آپ کے ليے مشکلات درپيش ہوتے ہيں کہ افسوس اب بهی چند برس گزر جانے کے بعد بهی اس کے منفی نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔
١٢ ۔ یہ مشہور دانشمند عالم ہنر ميں ید طولی اور نمایاں شخصيت کے مالک ہيں اس طرح سے کہ بہترین خط و کتابت ميں اپنی مثال آپ ہيں اور اپنے ہم عصر افراد ميں خطاطی کے ہنر ميں سرمایہٴ افتخار ہيں، نہایت نفيس اور عمدہ طغرے تحریر کيے بہترین سونے کے پانی سے مزیّن کيا، کہ جس کے ليے مناسب ہے کہ مختلف ممالک کے ميوزیم ميں اسلامی ہنر کے شيعوں کو غنی اور سربلند بنانے کے ليے استفادہ کيا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢ ۔ ، ١(۔ اس سياسی اور اعتقادی پروگرام سے آشنائی کے ليے رجوع کریں۔ نہضت فاطمہ، ج ١ ( کرامات و عنایات فاطمہ زہرا سلام الله عليہا، مولف علامہ سيد حجّت موحد ابطحی، مطبوعہ اصفہان۔
١٣ ۔ آیت الله توحيدی پيرانہ سالی کے باوجود اسلامی آداب کی رعایت کرنے ميں بہت زیادہ کوشاں ہيں: جوشخص بهی ان کی بزم ميں تشریف لاتا ہے تو وہ سر و پا بلند ہوتے ہيں، گهنڻوں مہمان کے سامنے دو زانو ہوکر بيڻهتے ہيں۔ (کبيرا لسن ہونے کی صورت ميں اگرچہ لوگوں کی طبيعت ناساز ہوا کرتی ہے لہٰذا موصوف بهی اس سے بے بہرہ نہيں ہيں) ہميشہ لوگوں کے احترام ميں دو زانو ہوکر بيڻهتے ہيں اور حاضرین ميں سے ایک ایک فرد کی مزاج پرسی کرتے ہيں۔
١۴ ۔ آیت الله توحيدی اس مشہور و معروف حدیث کے منجملہ مصادیق ميں سے ایک ہيں :
) عِلمِْکُم مَنطِْقُہ، وَ یُرَغِّبُکُم فِی الآْخِرَةِ عَمَلُہُ” ( ١ دُ فی ”مَنْ یُذَکِّرُکُمُ اللہُّٰ رُوٴْیَتُہُ، وَیَزی )یعنی ایسے افراد کی ہم نشينی اختيار کرنے کا حضرت عيسیٰ کی تعليم ميں ذکر ہوا ہے کہ ) جس کی ملاقات سے خدا یاد آجائے، جن کے انداز گفتگو سے تمہارے علم ميں اضافہ ہو اور خود اس کا عمل آخرت کی طرف شوق و رغبت دلائے۔ ایک جملہ ميں یوں کہا جائے: وہ مرد خدا تهے۔ جو شخص آپ کی خدمت ميں شرف یاب ہوتا تها ان کی بزم کو ترک نہيں کرتا تها مگر یہ کہ وہ امام زمانہ - کا عشق اپنے دل ميں احساس کرتا ہوا واپس جاتا تها۔ مزید خاندان عصمت و طہارت کا عقيدت مند اور دنيوی رعنائی اور دل کشی سے اس کے دل ميں بے رغبتی پيدا ہوجاتی تهی۔ ایسا کيوں نہ ہو کہ اس فرزانہ عالم نے بصيرت افروز نگاہ اور عميق موثر نفس اور ولائے امام زمانہ - کی عشق کی آگ ميں خود کو پگهلا دیا تها، جب بهی حضرت کا مقدس اسم گرامی ان کی زبان پر جاری ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ حضرت عيسیٰ - سے کسی نے سوال کيا: یا عيسی روح الله! ہم کو کس کی ہم نشينی ( اختيار کرنی چاہيے؟ فرمایا: جس کی ملاقات سے خدا یاد آجائے، جس کے انداز گفتگو سے تمہارے علم ميں اضافہ ہو اور خود اس کا عمل آخرت کی طرف شوق و رغبت دلائے۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج ٧٠ ، ص ٣٢٢ ۔
تها آنکهوں سے قطرات اشک آپ کے چہرہٴ انور پر ان کے صيقل شدہ دل سے زیادہ سے زیادہ نمایاں اور روشن ہوجاتے تهے اور حاضرین اس کشش سے اپنے دل ميں ایک نورانی نقطہ اور روشن شمع کا احساس کرتے تهے کہ جس کی وجہ سے بعض ہدایت یافتہ اور ان کے دل ميں ہميشہ ہدایت کا چراغ شعلہ ور رہتا تها۔
کتاب حاضر آپ کی منجملہ گراں قدر تاليفات ميں سے ایک ہے جو قرآن کریم اور حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے مقدس وجود کے مشترکات کے بارے ميں تحریر کی ہے۔ مولف گرامی نے اس کتاب ميں بدیع و جدت پسند اور ارزش مند نکات کو قرآن کے روشن حقائق حجّت زمان ناموس دہر، امام عصر حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے وجودی کردار کے بارے ميں سپرد قلم کيا ہے جو عصر حاضر کی دوسری کتابوں ميں ناپيد ہيں۔

کتاب کا واقعہ اور صاحب کتاب پر مولا کی عنایت اس کتاب کی دو سال قبل تبریز ميں کتابت ہوئی اور طباعت کے ليے آمادہ کی گئی، تو ميں (علی اکبر مہدی پور) نے مولف کی خدمت ميں اس بات کی گزارش کی اور تقاضا کيا کہ اس کتاب کو قم ميں زیور طبع سے آراستہ ہونے کی اجازت مرحمت کریں، آپ نے خاص بزرگواری کے ساته اس گزارش کو قبول کيا۔
حقير کی کوشش یہ تهی کہ یہ کتاب گزشتہ سال ١۵ شعبان کے موقع پر ہی طباعت اور نشر و اشاعت کے مرحلے کو طے کرلے، ليکن عملی طور پر ممکن نہيں ہوسکا، اس طریقے صفحات ميں “القرآن و الحجة” کے عنوان (A سے اس کا بعض حصہ آمادہ ہوا جو ٢٨٠ وزیری ( ٤ کے تحت منتشر ہوا۔
قابل توجہ نکتہ اور دقت کے شایانِ شان یہ ہے کہ یہاں اس بات کی یاد آوری مناسب ہے کہ گزشتہ سال کتاب کی تنظيم و ترتيب کا مرحلہ ١۵ شعبان کے نزدیک پہنچ گيا شعبان کی دسویں تاریخ کہ جس ميں یہ چاہيے تها کہ وہ ميڻنگ جو “عشرئہ مہدویت” کی مناسبت سے اصفہان ميں ہر سال منعقد ہوتی تهی وہاں جاؤں، ابهی کتاب کی تنظيم و ترتيب ختم نہيں ہوپائی تهی لہٰذا اس وجہ سے شعبان کی دسویں رات ميں سحر تک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تها۔
اذان صبح کے کچه لمحات کے بعد ایک مومنہ نے جو ہماری عقيدت مند تهی اس نے مجهے ڻيليفون کرکے کہا: ميں نے ایک خواب دیکها ہے ميں چاہتی ہوں کہ آپ سے بيان کروں، ابهی ابهی ميں نے خواب دیکها ہے کہ ایک بہت ہی وسيع فضا ميں دسيوں ہزار خواتين کے درميان ہوں اور سب ہی حضرت ولی عصر - سے توسل اختيار کيے ہوئے ہيں اور تمام خواتين بہت ہی بلند آواز ميں “یا صاحب الزمان” کہہ کر فریاد کر رہی ہيں۔ ہم سب کے بدن پر لباس احرام تها ميرے خيال ميں ہم لوگ صحرائے عرفات ميں تهے، تمام خواتين اس طرح دل کی اتهاہ گہرائيوں سے آواز دے رہی تهيں کہ کسی کو کسی دوسرے کی آواز سنائی نہيں دیتی تهی۔
ایک لمحہ ميں ميری آنکه بالا خانہ پر پڑی جو مساجد اور حسينيہ ميں خواتين کے حصہ کی شکل کی تهی، وہاں کچه حضرات بهی کهڑے ہوئے تهے جو سب ہی لباس احرام اپنے دوش پر رکهے ہوئے تهے اور ایک بزرگوار آقا کو انگوڻهی کے نگينہ کی طرح درميان ميں حلقہ بنائے ہوئے تهے۔
آپ اس حالت ميں ان حضرت کی طرف اشارہ کرکے ميری طرف متوجہ ہوکر کہتے تهے کہ اس مقدس شخصيت کے احترام ميں خاموش رہوں۔ امام - کا چہرئہ مبارک مجه سے پوشيدہ تها ليکن آپ نے ایک لمحہ کے ليے اس حائل شدہ چيز کو ہڻایا تاکہ ميں حضرت کے جمالِ جہان آراء کا دیدار کروں۔ ميں صرف ایک لمحہ ان کے بے مثال جمال کی زیارت کرسکا اور بغير فاصلہ کے ميں خواب سے بيدار ہوا۔ جمعہ کے دن ١۵ شعبان ١۴٢۵ ئه ق ایک محفل ميں حضرت حجة الاسلام والمسلمين آقای شيخ حسن صدیقين جو آیت الله شيخ محمد باقر رضوان الله تعالی عليہ کے یادگار فرزند تهے ان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا، ميں نے خواب کے واقعہ کو ان کی خدمت ميں نقل کيا، اپنے مخصوص تواضع و انکساری کے ساته جو انہيں والد مرحوم سے ارث ميں ملا انہوں نے ميرے اور صاحب خواب کے بارے ميں بہت سے نکات کی یاد دہانی کی منجملہ ان ميں سے کہا :
آپ اس وقت ایک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تهے جو حضرت حجّت - کے بارے ميں آیات قرآن کی بنياد پر تحریر کی گئی ہے ، اس کتاب کی حضرت نے تائيد کی ہے!!! قابل توجہ بات یہ ہے کہ آقائے صدیقين کتاب کے موضوع سے آگاہ نہ تهے، اس کے علاوہ فطری طور پر اذان صبح کے لمحات ميں بهی تاليف و تحقيق کا وقت نہيں ہے دوسرے نکتہ کی بات یہ ہے کہ یہ نہيں کہا کہ تاليف یا تحقيق ميں مشغول تهے، بلکہ کہا: “ایک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تهے” اور یہ تعبير بهی کہ “حضرت حجّت کے بارے ميں آیات قرآن کی بنياد پر تحریر کی گئی ہے” بہت اہميت کی حامل ہے اور مکمل طور پر کتاب کے موضوع پر منطبق ہورہی تهی۔
اس دن جب حضرت آیت الله توحيدی کی خدمت ميں ميں نے فون کيا تاکہ خواب کا واقعہ الحاج آقائے صدیقين کی تعبير کو عرض کروں تو کچه دیر تک فون پر روتے رہے۔ مولا کی اس خاص عنایت کے بعد یہ طے کيا کہ کتاب کے مکمل متن کو بہترین کيفيت کے ساته اس سال ١۵ شعبان تک نشر کریں۔
اپنے گراں قدر دوست، توان مند محقق حضرت حجة الاسلام آقائے محمد رضا فوٴادیان جو مہدویت کے متعلق کامياب محقق ہيں ان سے درخواست کی کہ کتاب کی تصحيح انجام دیں اور اس کے منابع کا استخراج کریں۔ انہوں نے خندہ پيشانی سے قبول کيا اور اپنی گرميوں کی تعطيلات کے پروگراموں کو اس کام کے ليے معطل کيا اور اس ارزش مند تاليف کو جس شکل ميں آپ ملاحظہ کر رہے ہيں آمادہ کيا اور حضرت صاحب الزمان - کے آستانہ کے عقيدت مندوں اور مولا کے عاشقين کی خدمت ميں پيش کيا۔
پهر ہمارے نورچشم آقائے محمد جواد اسلامی سلمہ نے اپنی ذمہ داری اور حسن سليقہ اور سر شار ذوق و شوق کے ساته کتاب کو منظم کرکے مرحلہٴ طباعت کے ليے آمادہ کيا۔
ہم خداوند منّان سے مولف محترم کی عزت و سرفرازی کے ساته طول عمر اور تمام طباعت و اشاعت کے مراحل ميں معاونين کے ليے مزید توفيقات کے طالب ہيں۔ یوسف زہرا - کے دیدار کی آرزو کے ساته دعا کے ليے ہاته اڻهاتے ہيں اور تمام دنيا کے شيعوں کے ساته یگانہ مصلحِ کائنات اور الله تعالیٰ کی آخری حجّت کے امر فرج کی تعجيل کے ليے بارگاہ خداوند منّان ميں عاجزانہ طور پر دعا گو ہيں۔
عيد سعيد مبعث رسول اکرم


علی اکبر مہدی پور