15%

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الفَْا شِی فِی الخَْلقِْ اَمرُْهُ وَحَمدُْ هُ الظَّاهِرِ بِالکَْرَمِ مَجدُْهُ البَْاسِطِ بِالجُْودِْ یَدَهُ اَلَّذِی لَاتَنقُْصُ خَزَائِنُهُ وَلَاتَزِیدُْهُ کَثرَْةُ العَْطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماًاِنَّهُ هُوَالعَْزِیزُْالوَْهَّابُ “ساری حمد اس خدا کےلئے ہے جس کا امر اوراس کی حمد مخلوقات ميں نمایاں ہے اور جس کی بزرگی اس کے کرم کے ذریعہ نمایاں ہے،اور اس کے دونوں ہاته بخشش کےلئے کهلے ہوئے ہيں ،اس کے خزانوں ميں کمی نہيں ہے ،اور کثرت عطا اس کے یہاں سوائے جود و کرم کے کسی بات کااضافہ نہيں ہو تا ہے”

سے یہ سوال کریں کہ وہ ہم کو متقين کا امام قرار دے:وَاجعَْلنَْالِلمُْتَّقِينَْ اِمَاماً ( ١)

“اور ہم کو متقين کا امام قرار دے ” ہم معصوم عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ؤں ميں یہ او لو االعزمی والا جملہ بہت زیادہ پڑها کر تے ہيں : آثَرنِی وَلَاتُوثِّرعَْلَیَّ اَحَداً “مجه کو ترجيح دے اور مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ”

دعائے قاع اور قمہ

دعاؤں کی دو قسميں ہيں ایک ميں بندہ کے مقام اور ان برا ئيوں اور گناہوں کو مجسم کياجا تا ہے جن سے انسان مرکب ہے جس کو عربی ميں قاع کے نام سے یاد کيا گياہے دوسری قسم ميںخداوند عالم کے سلسلہ ميں انسان کے شوق اور رجحان کو مجسم کياجاتاہے اور خدا وند عالم کے جود و کرم وسخاوت اور اس کی رحمت کے خزا نوں کی کو ئی حدنہيں ہے اس کوعربی ميں قمہ کہا جاتاہے ۔ حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام دعائے اسحا ر ميں دونوںکے ما بين اسی نفسی فا صلہ کو بيان فر ما تے ہيں :

اِذَارَایتُْ مَولَْي ذُنُوبْي فَزَعتُْ،وَاِذَارَایتَْ کَرَمَکَ طَمَعتُْ

“جب ميں اپنے گنا ہوں کو دیکهتا ہوں تو ڈرجاتا ہوں اور جب ميں تيرے کرم کو دیکهتا ہوں تو پُراميدہوجاتا ہوں ”

اور اسی دعا ميں آپ فر ما تے ہيں :عَظُمَ یَاسَيَّدِي اَمَلِي وَسَاءَ عَمَلِي فَاَعطِْنِي مِن عَفوِْکَ بِمِقدَْارِعَمَلِي وَلَاتُواخِذنِْي بِاسوَْءِ عَمَلي

____________________

١)سورئہ فر قان آیت/ ٧۴ )