“پس چهوڻے گروہ کو بڑے گروہ پر کامياب کردیتا ہے جب وہ چا ہتا ہے ”
چهوڻے اور بڑے گروہ کے جنگ کے راستہ کو ایک نہيں قرار دیتا جيسا کہ الله پر ایمان نہ لانے والے افراد گمان کرتے ہيں ،اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ کثرت اسباب مدد ميں سے نہيں ہے اور اقليت اسباب شکست ميں سے نہيں ہے ۔بيشک ہمارا یہ کہنا ہے کہ مدد کے دوسرے اسباب بهی ہيں اسی طرح شکست کے بهی دوسرے اسباب ہيں ،جب خداوند عالم کسی چهوڻے گروہ کی مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کےلئے فتح کے اسباب مہيا کردیتا ہے اور یہ اس کے قبضہ قدرت ميں ہے اور جب کسی بڑے گروہ کو شکست سے دو چار کرنا چا ہتا ہے تو اس کے اسباب فراہم کردیتا ہے اور یہ بهی اسی کے قبضہ قدرت ميں ہے :
( قَالَ الَّذِینَْ یَظُنُّونَْ اَنَّهُم مُلاَقُواْالله کَم مِن فِئَةٍ قَلِيلَْةٍ غَلَبَت فِئَةًکَثِيرَْةًبِاِذنِْ الله ( وَالله مَعَ الصَّابِرِینَْ ) ( ١)
“اور ایک جماعت جس نے خدا سے ملاقات کر نے کا خيال کيا تھا کہا کہ اکثر چهوڻے چهوڻے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجا تے ہيں اور الله صبر کرنے والوں کے ساته ہے ”
تکوین (موجودات )ميں بداء
کائنات ميں بداء کا مطلب یہ ہے :کائنات اور تاریخ ميں جو حادثات رونما ہو نے والے ہيں ان کے راستہ کو بدل دینا ۔اگر قانو ن عليت لوگوں کی زندگی پر حاکم ہو تا تو بہت سے مقامات ایسے آئے ہيں جہاں پر انسان پستی کے گڑهے ميں گرنے والا تھا تو اس مو قع پر مشيت الٰہی نے بڑه کر اس کو سہارا دیا اور پستی کے گڑهے ميں گرنے سے اس کو نجات دی ۔۔۔ جو قانون عليت کی حرکت کے خلاف ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ یہ قانون ملغیٰ (بے کار ) ہے اور اس کی کو ئی حيثيت نہيں ہے
____________________
١)سورئہ بقرہ آیت ٢۴٩ ۔ )