سکتی اور آندهياں اس کوہڻا نہيں سکتيں آپ ویسے قوی بدن تھے جيسا کہ رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور اپنے نفس ميں متواضع تھے اور خدا کے نزدیک عظيم تھے ،زمين ميں کبير تھے اور آسمان ميں جليل تھے آپ کے با رے ميں کسی کے لئے نکتہ چينی کا مقام نہيں ہے اور نہ کسی کہنے والے کےلئے اشارہ ہے اور آپ کے با رے ميں کسی مخلوق کو غلط طمع ہے اور نہ کسی کےلئے بيجا اميد ہے اپ کے نزدیک ہر ضعيف و کمزور و ذليل قوی اور عزیز رہتا ہے یہاں تک کہ آپ اس کےلئے اس کا حق لے ليں اور قوی عزت دار آپ کے نزدیک کمزور ہوتا ہے یہاں تک کہ اپ اس سے حق لے ليں ’
دوسرے مر حلہ ميں تاویل قرآن پر جنگ کرنے کی گواہی
اس کا پہلا حصہ تاویل کے دائرئہ ميں جنگ صفين سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کربلا سے متعلق ہے اور کربلا ميں اس سلسلہ کی جنگ واضح وآشکار طور پر واقع ہوئی اس ميں قلب سليم رکهنے والے کےلئے کوئی شک وشبہ نہيں ہے اس کا ہروہ شخص گواہ ہے جس کے پاس دل ہے یا جو قوت سماعت کا مالک ہے ۔
اس جنگ ميں امام حسين عليہ السلام اپنے ساته اپنے اہل بيت اور اصحاب ميں سے بہتّرافرادنيز ایسی مو من جماعت کے ساته کهڑے ہوئے جو ميدان کربلا ميں کسی وجہ سے یا بلا وجہ غير حاضر رہے ۔۔۔اور دوسری طرف یزید آل اميہ اور ان کی شامی اور عراقی فوج نے قيام کيا ۔
اس جنگ ميں کسی شک وشبہ کے بغير دونوں طرف کے محاذ اچهی طرح واضح ہو جاتے ہيں چنانچہ امام حسين عليہ السلام نبوت کی ہدایت کے ساته ظاہر ہوتے ہيں اور یزید سر کشوں ،جباروں اور متکبروں کی بری شکلوں ميں ظاہر ہوتا ہے ۔ کربلا ان دونوں جنگوں کے مابين حد فاصل ہے واقعہ کربلا سے ليکر آج تک کسی پر اس جنگ کا امر ومقصد مخفی نہيں رہاہے اور وہ حق وباطل کی شناخت نہ کر سکا ہو مگر الله نے جس کی آنکهوں کا نور چهين ليا اس کے دلو ں اور آنکهوں پر مہر لگادی اور ان کی آنکهوں پر پر دے ڈالدئے ہيں ۔