50%

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:علی عباس

ابتداءہے اس رب خدا ذوالجلال کے بابرکت نام سے کہ جس نے اس جہاں کو عدم سے وجود میں لایا اور اس وجود کو بر قرار رکھنے کے لیے کچھ ایسی ہستیاں بھیجی ہیں جو اس کی بقاءکی ضامن ہے اگر وہ ہستیاں نہ ہوتی تو یہ جہاں نہ ہوتا دین کا پتہ نہ ہوتا کعبہ کے طواف نہ ہوتے خدا کا پتہ نہ ہوتا قرآن جیسی مقدس کتاب نہ ہوتی خدا نے ان کو بھیج کر اپنا تعارف کروایا اور اگر آج امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا ہے اور خدا نے اس عظیم ہستی کے قصیدے خود قرآن میں بیان کیے کبھی فرمایا کہ اگر حجت خدا نہ ہوتی تو یہ ارض ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ہوتی اور پھر اپنے جلال میں آ کر والعصر ان الانسان یعنی خسر کے مصداق انسان کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جس نے زمانہ وقت کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل نہ کیں گو یہا وہ جہات کی موت مرا اور یہ تمام کائنات خداونودی اس عظیم مصلح کی خاطر رواں دواں ہے یہ چاند کا چمکنا سورج کا گردش کرنا اور دیگر تمام اشیاءزہرا کے بعد لال کی خاطر چل رہی لیکن وہ حسین علیہ السلام کا لخت جگر فقط ہماری خاطر دعائیں مانگتے ہیں خدایا میرے دادا اور دادی کے شیعوں کو معاف فرما کاش ہم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تو امام علیہ السلام نہ روتے اور امام فرماتے ہوں گے کہ ہمارے ماننے والے کم از کم سجدہ ضربت علی علیہ السلام کو یاد کرتے تو آج یہ فتویٰ نہ لگتا کہ شیعہ بے نمازی اور کاش ہمارے ماننے والے کربلا کے سجدے کو یاد کرتے تو نماز جیسے عظیم فرض خداوندی سے غافل نہ ہوتے آج ہمار ی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی طرف مائل کر کے لوگوں کو صبری زینبی علیہا السلام و سجادی سکھاتیں لوگوں کو سجدہ شبیری سکھاتیں لوگوں کو عشق آل محمد سکھاتیں آج علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ بکھری ہوئی قوم کو اکٹھا کریں آج امام علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں بہت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظہور امام علیہ السلام کے لیے راہ ہموار کریں اگر اس طرح ہے تو گویا ہم نے کیا کام کیا کہ شہید دیگر ہم سے خوش ہوں گے امام علیہ السلام ہم سے راضی ہے گو یا کہ امام سے دعاکریں مولا یہ شبیہہ راہ حق چاہے کوئٹہ کی مسجدوں میں شہید ہو یا امام بارگاہوں میں مولا یہ جانیں لاکھ قربان تیرے مشن کے لےے ہم کام کریں لوگوں کو سجدہ شبیر اور اسیر امام موسیٰ کاظمعلیہ السلام بتائیں گے یقینا امام کا وہ فرمان کہ جو بغداد کے زندان میں فرمایا کہ میں ظالم سندی بن شایک کا زندان تو کاٹ سکتا ہوں لیکن اپنے کافور میں موسیقی کی آواز برداشت نہیں کر سکتا جب ایسا ہے تو آج ہمارے گھروں میں کیبل ہے ہماری ماں، بہنیں دیکھ رہی ہے آج ہمارے گھروں میں وی سی آر، ڈش انٹینا ہے تو گویا ہم امام سے وفاداری نہیں کر اگر وفاداری کرنی ہے تو اپنی ذمہ داریاں نبھائیں فحاشیت کو ختم کرنا ہو گا موسیقی کو ختم کرنا ہو گا اپنا کردار سیرت آل محمد میں ڈھالنا ہو گا تب جا کر تم وفادار غلام ہوں گے کیونکہ تم یہ نہ سمجھ کہ امام علیہ السلام ہم سے بے خبر ہیں بلکہ تمہاری ہر ہفتہ کی رپورٹ امام علیہ السلام کے ہاں پیش ہوتی ہے اور امام علیہ السلام دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے منبروں سے ذاکرین عظام و علماءکرام کیا بیان کر رہے ہیں جب اچھے اور نیک اعمال ہوتے ہیں تو امام زمانہ علیہ السلام خوش ہوتے ہیں لیکن جب برے اعمال ہوتو مولا ناراض ہو کر گریا کرتے ہیں اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کو راضی رکھنے کے لیے کام کریں یا ناراض کرنے کے لیے کام کریں اگر تہیہ خلوص نیت ہے تو ابوذر جیسا کردار اپنے وجود میں ڈھالنا ہو گا آپ کو سلمان محمد کی سیرت اپنانا ہو گی آپ کو میثم تمار جیسا شاکر بنانا پڑے گا مختار ثقفی جیسا کردار اپنانا ہو گا جب ایسا ہے تو تم اپنی ذمہ داری نبھائیں اگر اس طرح نہیں ہے تو آئیں مل کر گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا وقت کے امام علیہ السلام سے غداری تو نہیں کر رہے کیا وہ خارجی تو نہیں بن گئے کیونکہ عصر ظہور کا وقت قریب سے قریب تر ہے یہ سوچنے کا وقت اب ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے تو اس وقت بہ ہوشی کی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر کہے کہ کاش ہم امام علیہ السلام کے ظہور کے لیے کچھ کام کرتے اب سوچیں اور دیکھیں مشاہدہ کریں کہ کیا گھر میں علم عباس کے بجائے گھر میں ڈش انٹینا تو نہیں ، اذان کے بجائے ہمارے کانوں میں موسیقی کی آواز تو نہیں مجلسوں اور عزاداری کی بجائے شراب و سرود کی محفلیں تو نہیں تو سوچیں کہ امام علیہ السلام وقت کو یہ جواب دیں گے آیا جواب دینے کے لیے وہ پاک لسان جو غیبتوں اور کذب و افتراءسے پاک ہو وہ زبان جو ہر دم قرآن و آل محمد کے ذکر سے مزین ہو کیا وہ لب لہجہ وہ گفتار آپ کے وجود میں ہے کیا امام کے نورانی چہرے کو دیکھنے کے لیے وہ نورانی آنکھیں جو نا محرم نے پاک ہو وہ تیار کی کیونکہ تمہارے پاس آل محمد کے غلاموں کی سیرت ہے کہ ابوذر کی اتنی تو فضیلت بڑھ گئی کہ پیغمبر کائنات جس کو فرمانا پڑا کہ زمین و آسمان میں ابوذر جیسا سچا کوئی نہیں کیوں اس نے سیرت آل محمد اپنائی اس کا اتنا عشق آل محمد سے تھا کہ جو ظلم تو برداشت کرتا رہا لیکن آل محمد کا عشق دامن سے نہ چھوڑا اس عظیم ہستی نے ربذہ کی گرم تپش تو برداشت کی لیکن علی علیہ السلام کا عشق نہیں چھوڑا یقینا وہ عظیم ہستی ربذہ کی گرم تپش کو اپنے خشک ہونٹوں سے لگا کر کہا ہو گا کہ عشق علی علیہ السلام اور مودت آل محمد کا مزا تو اب آ رہا ہے واقعا سلام ہو شہنشاہ ربذہ کی عظیم و جواں ارادوں کو جو ظلم و ستم تو برداشت کر سکتا تھا لیکن غلام آل محمد سے جدا نہیں رہ سکتا تھا اس کے علاوہ سوچیں کہ میثم تمار کی سیرت کیا تھیں کہ شام کے بادشاہ نے سولی پر لٹکوایا اور پھر پوچھا کہ علی علیہ السلام علی علیہ السلام کہنا چھوڑ دوں گے تو کیا عظیم جواب دیا کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن علی علیہ السلام علی علیہ السلام کہنا نہیں چھوڑ سکتا آج وہی شیطانین طاقتیں تمہیں بس عشق آل محمد میں مودت آل عمران میں مار رہی ہے لیکن آو ان عظیم ماوں کو سلام کریں کہ جنہوں نے راہ حق میں اپنے بچے کے گلے کٹوا دیئے ان عظیم بہنوں کو سلام کریں جنہوں نے اپنے کڑیل جوان جیسے ان عظیم بزرگوں کو سلام کریں جنہوں نے صبر زبینی کو اپنایا لیکن پھر بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں وہ ہدیہ پیش کیا کہ وہ وہی وقت تھا کہ مسجد میں اوپر سے موت کی گولیاں برس رہی تھی مومنوں کی زبان پر علی علیہ السلام علی علیہ السلام کا ذکر بلند تھا آئیں امام وقت کے ظہور کے لیے کام کریں سیرت آئمہ اور ان کے نقش قدم پر چلیں بزرگوں کو سیرت حبیب ابن مظاہر کی سیرت دیکھائیں جوانوں کو بتائیں کہ سیرت قاسمعلیہ السلام و علی اکبرعلیہ السلام یہ تھیں تم کن کی سیرت پر چل رہے ہو بہنوں کو ان کی آئیڈیل شخصیت فاطمہ و ثانی فاطمہعلیہ السلام کی سیرت دیکھاتیں اور بچیوں کو جناب سکینہ کی سیرت دیکھاتیں جب یہ تمام چیزیں اپنے وجود میں سمالی تو سمجھو تم نے اپنی ذمہ داری نبھالی امام زمانہ علیہ السلام کی تعجیل ظہور کی دعا رہبر معظم و قائد ملت کی عمر درازی دعا کے ساتھ۔والسلام