9%

بچوں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے ٤١ھ میں مسند خلافت پر آنے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین آدمی کے طور پر پہچنوائیں ۔ اس مکروہ ہدف کے حصول کیلئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل على (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال وزر دیا گیا تاکہ آپ کے خلاف پیامبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑھیں۔ اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائے ۔یہ عملی بھی ہوا اور بچے باتوں باتوں میں آپ پر لعن کرنے لگے۔ عمر عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوں کے ساتھ علی (ع) پر لعن کررہا تھا اس وقت وہاں سے ان کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھا کا گزر ہوا ۔ وہاں سے توخاموش نکل گئے،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوااور عمر آیا تو استاد نماز میں مشغول ہوا ۔ نماز کو طول دینا شروع کیا ، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے۔

عمر نے پوچھا :حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا : بیٹا کیا آج تم نے علی پر لعن کی؟

کہا: ہاں ۔

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہے۔کیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

کہا: کیا بدر اور اہل بدر کیلئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا: میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد زندگی بھر ان پر لعن نہیں کرونگا۔ کئی سال اسی طرح گزرگئے۔ ایک دن ان کے والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دیتا تھا۔ لیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت آتا تھا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا۔

کہا بابا جان میں نہیں جانتا کہ کیوں کر آپ کی فصاحت وبلاغت ادھر آکر ماند پڑ جاتی ہے اور زبان بند ہوجاتی ہے؟!

کہا میرے بیٹے؛ اس پر تو متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں۔

باپ نے کہا: میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مرد الہی (علی (ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جاتے تو یہ سب ان کی اولادوں کے گرویدہ ہوجاتے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں آتے۔

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیا۔اس وقت اس نے یہ عہد کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار آئے تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا۔

اور جب ٩٩ھ میں یہ برسر اقتدار آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی پر لعن وشتم کو ممنوع قرار دیا ۔ اس لعن کے بدلے انّ اللہ یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے کا حکم دیا۔

بچوں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیامبر اسلام (ص) نے فرمایا: جب استاد بچے کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھواتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچے اور اس کے والدین اور معلّم کو آتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے-(۱)

امام صادق(ع) نے رسولخدا (ص)کے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسیٰ A ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گذرے تو عذاب ٹل چکا تھا۔ سوال کیا پروردگارا کیا

ماجراہے؟وحی آئی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات دی۔

علم دین سکھانے پرثواب

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین (ع) کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے کچھ پیسے اور کپڑے دئے اور اس معلم کے منہ کو جواہر سے بھر دیا ۔ تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امام (ع) نے فرمایا : کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا کے برابر ہوسکتا ہے؟(۲)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا ، جب اس سے وجہ پوچھی گءی تو کہا: کیونکہ میرے باپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا

کرآسمان پر لے گیا-(۳)

امام سجاد(ع) فرماتے ہیں : تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اسے بزرگ سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے۔ اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے۔ اپنی آواز اس سے بلند نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے کچھ پوچھے تو تو جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتواس کا دفاع کرے ، تو اس کے عیوب پر پردہ ڈالے اور اس کی اچھائیاں ظاہر کرے۔ اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کا آغاز نہ کرے۔ اگر تو اس طرح کرے گا تو خدا تعالی کے فرشتے گواہی دینگے کہ تو نے اس جانب توجہ دی ہے اور تو نے علم لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے نہیں بلکہ خدا کیلئے حاصل کیا ہے۔اور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو یہ جان لے کہ خدا تعالی نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے ۔لہذا اگر تو انھیں اچھی طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالی اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انھیں ڈرائے اور ان پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالی تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(۴)

والدین کی ظلم ستانی اور فراری بچّے

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جو اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرارہونے سے پہلے لکھا ہے:

بابا یہ اولین اور آخرین خط ہے جسے غور سے پڑھ لو شاید آپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکاہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھے کہ کس قدر تو خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تجھ سے متنفر ہوں دوبارہ تیرے منحوس چہرے کو نہیں دیکھوں گی،تو اس قابل نہیں کہ تجھے باپ کہہ کر پکاروں۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کیلئے کبھی خلق نہیں ہوا۔تو ایک پلید اور کثیف بلا ہو۔ تو نے مجھے بچپن سے لیکر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا ، میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیا۔جبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ ایک بیٹی کیلئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تو نے میری ماں کو طلاق دی اور انہوں نے مجھے آخرین بار اپنے آغوش میں لے کرگرم آنسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی ۔ اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی وہ زندہ ہے یا مردہ؟

لیکن اس دن جب تو نے مجھے آواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں ، کہ میری ماں مر گئی ہے ۔یہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا ۔ اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی ۔ اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تو نے ٹھوکر مجھے ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تیرے اس وحشی رویّے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی ۔ یہ رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں۔ جب کہ تو اور تیری بیوی فلم ہال سے واپس گھر نہیں پہنچے ہیں ۔ کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کیلئے نکل جاؤں گی۔ اور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم ،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں

موجود ہیں ۔ مگر لوگوں کو یقین نہیں آئے گا-(۵)

____________________

۱ ۔ جامع احادیث شیعہ،ج١٥، ص٩۔

۲ ۔ مستدرک الوسائل،ج١، ص٢٩٠

۳. کشکول شیخ بہائی، ص٢٧۔

۴ ۔ مکارم الاخلاق،ص٤٨٤.

۵ ۔ الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص٢٤٨۔