حضرت علی ـ نے فرمایا: '' جو شخص یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اپنے دوستوں سے جدا ہوجائے گا اورخاک کے سینہ میںچھپ جائے گا اور اپنے سامنے حساب وکتاب رکھتا ہے اور جو کچھ اس نے چھوڑا ہے اس کے کام نہیں آئے گا اور جو کچھ اس نے پہلے بھیجا ہے اس کا محتاج ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آرزؤوں کے رشتہ کو کوتاہ اور عمل کے دامن کودراز کرے''(١) حضرت امام محمد باقر ـ نے بھی فرمایا ہے: ''آرزو کو کم کر کے دنیا سے رہائی کی شیرینی حاصل کرو''۔(٢)
ج۔ موت کی یاد:
اسلام کے تربیتی اخلاق میں بہت کارآمد وسیلہ ہے وادی معرفت کے سالک اور محبت پروردگار کے کوچہ کے دلدادہ افراد نے موت کی یاد سے متعلق قیمتی تجربے ذکر کئے ہیں، نیز آیات وروایات میں بھی ذکر موت، تربیت اخلاقی میں ایک مفید حکمت عملی اور تدبیرکے عنوان سے مورد تاکید واقع ہواہے ۔جیسا کہ کہا گیا ہے: طولانی عمر سے استفادہ کرنے کا یقین دراز مدت آرزؤوںکے ارکان میں سے ہے جو کہ دنیا سے محبت اور ذخیرہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اخلاق اسلامی اپنے بہت سے ارشادات سے ''یادمرگ '' کی نسبت اور اصل موت اور اس کے نا گہانی ہونے کے بارے میں دائمی نصیحت سے، ہمارے نفسانی رجحان کو کل کی نسبت ہمیں آمادہ کرتے ہے۔ ہماری کل کی زندگی کی امیدوں کی تصحیح کرکے ہمارے موقف اور ہماری رفتار کو آج کی نسبت بھی اصلاح کرتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر ـ نقل فرماتے ہیں کہ لوگوںنے پیغمبر اکرم سے سوال کیا: سب سے زیادہ چالاک مومنوں میں کون ہے ؟ رسول خدا نے جواب دیا: وہ انسان جوسب سے زیادہ موت کو یاد کرے اور سب سے زیادہ خودکو موت کے لئے آمادہ کرے۔(٣)
حضرت علی ـ نے فرمایا: جب تمہارے نفوس تمہیں خواہشات اور شہوات کی جانب کھینچیں، تو موت کو کثرت سے یاد کروکیونکہ موت سب سے بہتر واعظ ہے رسول خدا اپنے اصحاب کو موت کی یاد کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے: موت کا کثرت سے ذکر کرو، کیونکہ وہ لذتوں کو درہم برہم کرنے والی اور تمہارے اور تمہارے خواہشات کے درمیان حائل چیز ہے۔(٤)
____________________
١۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٣، ص ١٦٧، ح ٣١۔
٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٥۔
٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٣، ص ٢٥٨ز۔
٤۔ شیخ طوسی، امالی، ص ٢٨، ح ٣١۔