قرآن کریم ایک گروہ کی مذمت میںفرماتا ہے: ''انہیں چھوڑ دو تاکہ کھائیں اور مزے اڑائیں اور امیدیں انھیںغفلت میں ڈالے رہیں، عنقریب وہ جان لیں گے''۔(١)
اسی طرح طولانی خواہشات انسان کو '' تسویف '' میںمبتلا کرتی ہیں یعنی انسان ہمیشہ پسندیدہ امور کو کل پر ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت علی ـ اپنے اصحاب کونصیحت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''دنیا کو چھوڑ دو کہ دنیا کی محبت اندھا، بہرہ، گونگا اور بے حال بنادیتی ہے۔ لہذا جو کچھ تمہاری عمر کا حصہ باقی بچا ہے اس میں گذشتہ کی تلافی کرو اور کل اور پرسوں نہ کہو (ٹال مٹول نہ کرو) اس لئے کہ تم سے پہلے والے جو ہلاک ہوئے ہیں لمبی آرزؤوں اور آج اور کل کرنے کی وجہ سے، یہاںتک کہ اچانک ان تک فرمان خداوندی آپہنچا (انھیںموت آگئی) اور وہ لوگ غافل تھے''۔(٢)
ب۔ پست ہمتی:
پست ہمتی انسان کو بلند مقامات اور عالی اہداف و مقاصد تک پہونچنے سے روک دیتی ہے،
آئندہ کے بارے میں غور وفکر اورعاقبت اندیشی کی نوبت نہیں آنے دیتی اور صرف آج کی فکر اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کی عادی بنادیتی ہے۔ آئندہ کی سعادت اور اس کے خوشگوا ر ہونے کی فکر کرنا اور ابھی سے کل کی مشکلات کا استقبال کرنا بلند ہمت اور عظیم روح کے مالک افراد کا ہنر ہے، اپنے مستقبل کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روشن اور درخشاں دیکھنا اور ابھی سے مستقبل کے لئے چارہ اندیشی کرنا بلند ہمت افرادکی شان ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کی نسبت اور آج سے کل کی اصلاح کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان کے لئے ایک مانع کے عنوان سے پست ہمتی کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''تین چیزیں انسان کو مقامات عالیہ اور بلند اہداف تک پہونچنے سے روک دیتی ہیں: پست ہمتی، عدم تدبیر، غور وفکر میں تساہلی۔(٣)
____________________
١۔ سورئہ حجر، آیت ٣۔
٢۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٦، ح٢٣۔
٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٣١٨۔