ہ۔ دنیوی نعمتوں کی طرف نفس کارجحان
انسان کے بہت سے اعمال ورفتاردنیا کی نسبت ان کے نفسانی رجحان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بہت سے نفسانی صفات اور ملکات کی پیدائش کا سر چشمہ ہے ایسا لگتاہے کہ اخلاق اسلامی میں مواہب دنیوی کی نسبت نفسانی مطلوب کا رجحان زہد کے محور پرگھومتا ہے اور وہ تمام عام مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں جیسے قناعت، عفت، حرص، طمع و حسرت وغیرہ ان سب کو زہد کی بنیاد پر بیان کیا جاسکتا ہے۔
زہد
ایک۔ زہد کا مفہوم
ارباب لغت کی نظر میں کسی چیز کی نسبت زہد اختیار کرنے کے معنی اس چیز سے اعراض اور اس سے بہت کم خوش ہونا ہے۔(١) علماء اخلاق کے فرہنگ میں '' زہد '' نام ہے دنیا سے قلبی اور عملی اعتبار سے کنارہ کشی اور اعراض کرنے کا مگر اتنی ہی مقدار میں جتنی انسان کو اس کی ضرورت ہے۔
بعبارت دیگر زہد یعنی آخرت کے لئے دنیا سے رو گردانی اور خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع رابطہ کرنا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً، زہد اس شخص پر صادق آتا ہے جس کے یہاںدنیا کے تحصیل کرنے اور اس سے بہرہ مندہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ دوسرے، دنیا سے روگرداں ہونا آخرت کی بہ نسبت دنیا کی پستی اور حقیر ہونے کے اعتبار سے۔ جب بھی دنیا کا ترک کرنا امکان تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے ہو ( یعنی دنیا کی تحصیل کرنااس کے لئے ممکن ہی نہ ہو) یا خدا کی رضایت اور تحصیل آخرت کے علاوہ کوئی اورہدف و مقصد ہو جیسے لوگوں کی خوشنودی اور دوستی جذب کرنے کے لئے ہو یا اس کی تحصیل میں سختی اور مشقت سے فرار کرنے کی وجہ سے ہو تو اسے '' زہد '' نہیں کہا جائے گا۔(٢)
____________________
١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ٣٨٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٣، ص ١٩٦ اور ص ١٩٧۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادت، ج ٢ ص ٥٥ اور ص ٥٦۔