6%

ج۔ زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہش اور شوق سے دنیا کو ترک کرے اور کبھی کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا احساس نہ کرے۔یعنی احساس نہ کرے کہ کوئی معاملہ ہوا ہے، اسی طرح جیسے کوئی ایک مشت خاک کو چھوڑ دے تاکہ یاقوت حاصل کرے، وہ کبھی احساس نہیں کرتا کہ کوئی چیز اس نے قیمتی چیز کے مقابل گنوائی ہے اور کوئی معاملہ کیا ہے۔

٢۔ زہد کے مراتب اعراض کی جانے والی چیزوں کے اعتبار سے:

اس اعتبار سے زہد کے چند درجے درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

الف۔ محرَّمات سے اعراض کرنا ؛ یعنی محرَّمات سے دوری اختیار کرنا کہ جسے '' واجب زہد '' کہتے ہیں۔

ب۔ شبہوںسے اعراض کرنا اور ان کی نسبت زہد اختیار کرنا جو کہ انسان کو ارتکاب گناہ اور محرمات سے سالم رکھنے کا باعث ہیں۔

ج۔ حلال چیزوں سے ضرورت سے زیادہ مقدار کی نسبت زہد اختیار کرنا، یعنی غذا، پوشاک، رہائش، زندگی کے ساز وسامان وغیرہ میں اور ان کو حاصل کرنا کے اسباب و ذرائع جیسے مال وجاہ میں ضرورت بھر پر اکتفا کرنا۔

د۔ زہد اختیار کرنا ان تمام چیزوں کی نسبت کہ جو نفس کی لذت کا باعث ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا سے ضرورت بھرچیزوں میں بھی اس معنی میں کہ ضروری مقدار سے فائدہ اٹھانا اور فیضیاب ہونا بھی اس کی لذت کے لئے نہ ہو، نہ یہ کہ دنیا کی ضرورت بھر چیزوں کو بھی ترک کردے کہ اصولی طور پر ایسی چیز کا امکان ہی نہیں ہے۔ زہد کا یہ درجہ اور اس سے ماقبل تیسری قسم حلال میں زہد اختیار کرنا ہے۔

رسول خدا نے فرمایا: ''وہ لوگ مبارک وخوشحال ہیں جو خدا کے سامنے فروتنی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے لئے حلال کیا گیا ہے اس میں زہد اختیارکرتے ہیں بغیراس کے کہ وہ میری سیرت سے رو گرداں ہوں''۔(١)

ہ۔ جو کچھ خدا کے علاوہ ہے اس سے روگرداں ہونا، حتیٰ خود سے بھی، لیکن بعض اشیاء کی طرف بقدر ضرورت توجہ جیسے خوراک، پوشاک اور لوگوں سے معاشرت زہد کے اس درجہ سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ خداوند رحمان کی جانب توجہ انسان کے زندہ اور باقی رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور انسان کی زندگی کے لئے ضروریات حیات ضروری ہیں۔

____________________

١۔ کافی، ج٨، ص١٦٩، ح ١٩٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص٣٠۔ اسی طر ح ملاحظہ ہو صدوق، فقیہ، ج٤، ص ٤٠٠، ح ٥٨٦١، اور تفسیر عیاشی، ج٢، ص٢١١، ح٤٢۔