6%

اپنے سے دوسروں کی بد گمانی کو دور کرنے کا طریقہ حضرت علی ـ مالک اشتر سے بیان فرماتے ہیں:

'' اگر رعیت تمہارے بارے میںظلم و ستم کا گمان کرے تو اپنے عذرکو ان کے درمیان آشکار طورپر بیان کرو اور ایسا کرکے ان کی بد گمانی دور کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعیت کے ساتھ نرمی اور مدارا کا اظہار بھی اور وہ عذر خواہی بھی ہے جس کے ذریعہ تم انھیںحق کی راہ پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کر سکتے ہو''۔(١)

جی ہاں، ہمیشہ حسن ظن پسندیدہ اور محبوب نہیں ہے بلکہ کبھی بے موقع اور ناپسند بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے زمانے میں حسن ظن رکھنا جب کہ ظلم و فساد حق اور خیر وصلاح پر غلبہ رکھتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے، جیسا کہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے: ''اگر زمانہ اور اہل زمانہ پر برائی غالب آجائے اورکوئی دوسرے پر حسن ظن رکھے تو گویا اس نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے ''۔(٢) دوسری جگہ دشمنوں سے حسن ظن رکھنے کی مذمت کے بارے میں مالک اشترکو ہوشیار کرتے ہیں: صلح کے بعد اپنے دشمن سے مکمل طور پر چوکنا اور ہوشیار رہنا کیونکہ دشمن کبھی کبھی اپنے آپ کو تم سے اس لئے نزدیک کرتا ہے تاکہ تمہیں غافل بنادے لہٰذا دور اندیش اور محتاط رہو اور اپنے دشمن سے حسن ظن نہ رکھو''۔(٣)

چار۔ خداوندسبحان سے دوستی کے موانع

یہاں پر خدا کی راہ میںموانع محبت سے مراد ایسے موانع ہیں جو خود نفسانی صفات میں سے ہیں اس طرح کے اہم ترین موانع، حسد، حقد اور کینہ توزی وغیرہ ہیں۔

١۔ حسد:

ارباب لغت کے نزدیک حسد، اس بات کا نام ہے کہ انسان دل میں کسی شخص کی ایسی نعمت سے محرومیت کی تمنا رکھتا ہو جس کا وہ استحقاق رکھتا ہو۔(٤)

علماء اخلاق نے اس مفہوم کی مزید شرح میں زیادہ کہا ہے: حسد یعنی ایسی نعمت کے زوال کی آرزو کرنا جس سے استفادہ کرنے میں مسلمان شخص کی صلاح ہے۔ اس تعریف میں دو معتبر عنصر تصور کئے گئے ہیں: اول یہ کہ انسان

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔

٢۔ نہج البلاغہ حکمت ١١٤، اسی طرح ملاحظہ ہوکلینی کافی ج٥، ص ٢٩٨، ح٢ ؛ ؛حرانی، تحف العقول، ص٣٠٢۔

٣۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔

٤۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص١٦ا۔