6%

حالانکہ اخلاق اسلامی میں نفس کی شرافت و کرامت نہ صرف ایک اخلاقی فضیلت ہے(١) بلکہ اسے حاصل کرنا اور تقویت پہنچانا تربیت کا خود ایک طریقہ ہے۔(٢)

لیکن عرفانی نظریہ کے دوسرے گروہ والے جو شریعت سے وفاداری کو اپنی تعلیم کے لئے سرِ لوح (بنیاد) اور لازم قرار دیتے ہیں، معنوی سفر کے قاعد وں کو منظم کرنے اوراُن کے مبدأ و مقصد اور اس سفر کے مرحلوں کو معین کرنے سے حاصل نتیجوں کواور ان قدرتمند عناصر (جیسے محبت، ذکر، معنوی بلندی کے لئے نظارت) کے استعمال کر نے کی کیفیتوں کو جو اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بہت ہی کار آمد و مفید ہیں، اپنے ہمراہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اِن تمام امور کو قرآن و روایات کے مطابق جانتے ہیں۔ تربیت کے ان جذاب نتیجوں کو اخلاق اسلامی کے توصیفی مباحث کے ہمراہ کرنا اسلام کے اخلاقی نظام کے لئے مفید ثابت ہوگا۔

٣۔اخلاق نقلی(٣)

یعنی وہ اخلاق جسے محدثین نے اخبار واحادیث کو نقل ونشر کر کے لوگوں کے در میان بیان کیا ہے اور اس طرح اسے وجود میں لائے ہیں۔(٤)

اس نظریہ میں اخلاقی مفاہیم کو کتاب وسنت کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل اُن مفاہیم پر حاکم، واقعی تربیت اور ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبتوں پر کافی و وافی توجہ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس طرح کے متن اکثر اخلاقی مفاہیم کی توصیف کو اپنا مقصد قرار دیتے ہیں اور ان کی بنیادوں اور عملی نمونوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اس بناء پر (اس نظریہ میں ) اخلاق کی ابتداء و انتہا مخصوصاً اخلاقی تربیت زیادہ واضح نہیں ہے۔ اس اخلاقی روش میں ایسی کوئی چیز نظرنہیں آتی ہے جس کی بناء پر اسے ایک اخلاقی نظام کہا جاسکے اور جو اخلاق کی بنیادی بحثوں کو بھی شامل کئے ہو اور تربیتی و توصیفی بحثوں کو بھی عقلی ترتیب کے لحاظ سے پیش کئے ہو۔اس روش پر لکھی ہوئی

____________________

١۔ (وَ لِلّٰهِ العِزَّةُ وَ لِرَسُولِه وَ لِلمُومِنین ) (سورہ: منافقون، آیت: ٨)۔

''وَلاَ تَکُن عَبد غَیرکَ وَ قَد جَعَلَکَ اﷲُ حُرّاً ، ، (نہج البلاغہ: نامہ٣١)۔

٢۔ مقدس اسلامی کتابوں میں مکارم اخلاق (مکارم یعنی بڑی خوبیاں) سے مراد یہی ہے۔

بعض روایتیں، جیسے''مَن کَرُمَت عَلَیه نَفسَه هَانَت عَلَیه شَهوَاته ، ،۔(نہج البلاغہ، حکمت: ٤٤١)۔

ایضاً: ''مَن هَانَت عَلَیه نَفسَه فَلَا تَمَن شَرَّه ، ،۔(تحف العقول، ص: ٤٨٣) اس بات کو بیان کرتی ہیں۔

٣۔ نقلی سے مراد آیات و روایات یا کسی کے قو ل کو نقل کرنا ہے۔٤۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ٢٠١۔