6%

١لف۔ ثبات اور اطمینان ( عدم اضطراب ) :

ثبات ایک ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو اس بات کی قدرت عطا کرتا ہے کہ خطروں میں پڑ کر مشکلات اور رنج والم کی سختیوں کا ،خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، مقابلہ کرے، بغیر اس کے کہ اس میں ذر ہ برابر بھی شکستگی پیدا ہو۔ اس کے مقابل مشکلات وخطرات کے وقت اضطراب، تزلزل ہے۔ ثبات وپا یداری کے گونا گوں مظاہر پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے نمایاں شکوک وشبہات کے مقابل ایمان میں پایداری اور ثبات ہے۔ قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: '' خدا وندعالم صاحبان ایمان کو دنیوی اور اخروی زندگی میں محکم واستوار سخن سے ثابت وپایداربناتا ہے ''۔(١)

واضح ہے کہ ایمان میں ثبات اور عد م تزلزل تمام اہم نفسانی رجحانا ت کی پایداری و ثبات کا مقدمہ ہے۔ یہ امر خود بھی عمل صالح انجام دینے میں پایداری و ثبات کاباعث ہوگا۔ ثبات و پایداری معرفت کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت وعظمت کا بھی نتیجہ ہے جوکہ اہم نفسانی فضائل میں سے ایک ہے۔(٢)

ب۔ بلند ہمتی:

یعنی کمال و سعادت کے حصول اورعالی ترین امور تک پہنچنے کے لئے اس طرح سے کوشش کرنا کہ ان تک پہنچنے کی راہ میں دینوی نفع ونقصان کی طرف توجہ نہیں دے۔ بلند ہمت افراد کو دنیوی منافع شاد و مسرور اور اس کے نقصانات غمگین ومحزون نہیں کرتے حتی کہ بلند اہداف تک پہنچنے میں موت اور قتل کئے جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔اس کے مدمقابل کوتاہی اورپست ہمتی ہے کہ پست ہمت شخص بلند اہداف کی طلب میںکوتاہی کرتا اور صرف پست اور معمولی امور پر قناعت کرتا ہے یہ نفسانی صفت خود ہی روح کی عظمت وقوت کا نتیجہ ہے اوربلا شبہہ نفسانی فضائل میں سے ایک ہے، کیونکہ قابل قدر اوربلند انسانی اہداف تک رسائی بلند ہمتی اور عظیم جد و جہد کے بغیر میسر نہیں ہے، شہامت ( شجاعت) جوکہ خود ایک با اہمیت نفسانی ملکہ ہے، اسے بلند ہمتی کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔(٣)

ج۔ غیرت وحمیت:

یعنی جس چیز کی حفاظت لازم ہے اس کی پاسداری و محافظت کی کوشش کرنا، یہ حالت روح وشہامت کی قوت و عظمت کے نتائج میں سے ایک ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا وند تبارک و تعالی غیرت مند ہے اور ہر غیرت مند کو دوست رکھتاہے اس کی غیرت مندی ہی ہے کہ اس نے برائیوں کو خواہ ظاہر ہوں یا پنہاں، حرام کیا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٢٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جا مع السعادات، ج ١، ص ٢٦٢۔ ٣۔ ایضاً، ج١، ص ٢٦٣، ٢٦٤۔ ٤۔ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٣٥، ح ١۔