یہ بات مخفی نہ رہے کہ ناموس کے سلسلہ میں حد سے زیادہ غیرت دکھانا ہرگز پسندیدہ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات فساد کاباعث بھی ہوسکتا ہے۔ غیرت کا مقام وہاں ہے جہاںحرام کے ارتکاب کا یقین ہو یا انسان کو مقام تہمت وبد گمانی میں واقع ہونے کا خطرہ ہو۔ حضرت علی ـاپنے فرزند امام حسن ـ کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے جاغیرت سے پرہیز کرو کہ یہ چیز صحیح و سالم عورت کو بیمار بنادے گی اور پاکدامن کو بد گمانی (اور گناہ کی فکر) میں ڈال دے گی۔(١)
٣۔ اولاد کے سلسلہ میں غیرت:
اولاد کے سلسلہ میں غیرت کا مطلب یہ ہے کہ آغاز طفولیت سے ہی ان کی مادی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے حلال راستوںسے کوشش کرے۔ ان کی صحیح تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہے اور ایسے خطرات سے اولاد کی حفاظت کرے جو ان کی جسمانی یا اخلاقی صحت و سلامتی کے لئے چیلنج ہوں۔
٤۔ مال کے سلسلہ میںغیرت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مال دنیا میں انسان کی بقا کا ضامن نیز علم و عمل اور اخروی سعادت کی تحصیل کا وسیلہ ومقدمہ ہے۔ اس وجہ سے ہر عاقل پر لازم ہے کہ اس کی تحصیل کے لئے جائز و مشروع راستوں سے کوشش کرے اور اس کی محافظت ونگہداری کے سلسلہ میںاپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔ مال کے متعلق غیرت دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے علاوہ کسی اور راہ میں ضایع نہ کرے، خود نمائی اور دکھاوے میں خرچ نہ کرڈالے، اسے بے نیازوں کے حوالے نہ کردے، اس کے خرچ کرنے اوربخشش کرنے کے سلسلہ میں اسراف کا راستہ نہ اپنائے(٢)
د۔ وقار اور قلبی سکون:
اخلاقی لغت میں ''وقار '' رفتار و گفتار اور حرکات میں پائے جانے والے سکون واطمینان کانام ہے۔ اس وجہ سے ''وقار'' ایک ایسا عام مفہوم ہے جو''تأنی ّ'' اور ''توقّف '' دونوں کو شامل ہوتا ہے؛ اس لئے کہ ''توقف '' ہر طرح کے اقدام سے پہلے لمحہ فکریہ اور اپنے اوپر کنٹرول کرنے کا نام ہے تاکہ اس اقدام کا درست ہونا انسان پر آشکار ہوجائے۔ ''تأنی ّ'' گفتار ورفتار کے شروع ہونے کے بعد ذہنی سکون و اطمینان کا نام ہے تاکہ امور کو شائستگی کے ساتھ مرحلہ انجام تک پہنچاسکے۔
____________________
١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٦٥، ٢٧٤۔