دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی
مقدمہ
١۔مسئلہ کی وضاحت:
ناقص بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا، چوری کرنا، قومی برتری پر اعتقاد رکھنا وغیرہ بعض گذشتہ معاشرے میں جائز مانا جاتا تھا اور اُنھیں اخلاق کے خلاف شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آج معاشرے کی اکثریت ان چیزوں کو غیر اخلاقی مانتی ہے۔اس زمانے میں بھی مختلف تہذیبیں اخلاقی فضائل ورذائل کے بارے میں متعدد قسم کے نظریات رکھتی ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ بعض معاشرے ''چند بیویوں، ، کے ہونے کو جائز اور حجاب کو ضروری جانتے ہیں، اکثر عیسائی تہذیبوں میں ''چند بیویوں، ، کا ہونا غیر اخلاقی بات اور حجاب کو غیر ضروری جانا جاتا ہے۔
اس طرح کی حقیقتوں پر توجہ کر نے سے ہم اخلاق سے متعلق ایک اہم سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا اچھی اور بری اخلاقی عادتیں اور خصلتیں آفاقی و جاودانی ہیں ؟ اخلاقی عدالتوں نے انسانوں کی ظاہری اور باطنی صفتوں کے لئے جن احکام کو صادر کیا ہے کیا وہ عالمی اور ابدی اعتبار رکھتی ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا اخلاقی خوبیا ں اور برائیاں مطلق اور عام ہیں یا نسبی خصوصیتیں رکھتی ہیں اور تنہا کسی خاص دور اور زمانہ یا خاص مکان و معاشرہ اور مخصوص حالات کے لئے اعتبار اور معنی رکھتی ہیں ؟
٢۔ بحث کی تاریخ:
اس بحث کی شروعات قدیم یونان کے زمانہ تک پہنچتی ہے اور مغربی ملکوں کے جدید علمی زمانہ میں بھی یہ سوال اخلاقی فلسفیوں کے لئے ایک بنیادی سوال بن گیا ہے۔ اسلامی مکاتب میں اخلاق کے نسبی رجحان کو اشعری متکلمین کے یہاں پایاجا سکتا ہے، اگرچہ ان لوگوں نے اشیاء کے عقلی وذاتی حسن وقبح
سے انکار کرنے میں '' اخلاقی نسبیت''( Ethical relataivity )کی اصطلاح سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ لیکن یہ بحث موجودہ زمانہ میں مسلمان دانشوروں کے علمی حلقوں میں بھی ایک بلند درجہ رکھتی ہے اور مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی گئی ہے۔