قرآنی داستان میں عواطف کو تحریک کرنے اور اُسے ابھارنے کے علاوہ، تعقل وخردمندی کی پرورش بھی پائی جاتی ہے، قرآنی قصے انسانوں کے درمیان اخلاقی روابط کو واضح انداز میں بیان کرتے ہیں اور آخر کار، یہ اخلاقی فضائل ہیں جو کامیابی کے ساتھ میدان سے باہر آتے ہیں اور پستیاںاور ذلتیں اورسیاہ رو ہوجاتی ہیں ہابیل وقابیل ، موسیٰ وفرعون، موسیٰ وقارون، موسیٰ اور عبد صالح، آدم وحوّا، بنی اسرائیل کی گائے، ابراہیم اور اسماعیل، یوسف اور ان کے بھائی، لوط اور ان کی قوم وغیرہ کی داستانیں بہت سے اخلاقی اور تربیتی نکات کی حامل ہیں۔ وہ نکتہ جو قرآنی داستانوں میں توجہ کو جلب کرتا ہے ، یہ ہے کہ پست میلانات کا ذکر نہیں چھیڑتا اور مردو عورت کے روابط سے متعلق داستانوں میں حریم حیا کو محفوظ رکھتا ہے اور جزئیات کے ذکر سے اجتناب کے ذریعہ پردہ دری نہیں کرتا ہے۔
داستان سے مناسب اور بجا استفادہ خصوصاً قرآنی داستانوں یاائمہ طاہرین علیہم السلام اور بزرگان دین سے متعلق داستانوں سے آسان زبان میں بیانات کی مقبولبت میں حیرت انگیز اثر ایجاد کرتاہے۔(١)
ج۔تشبیہ وتمثیل:
''تمثیل ''ایک موضوع کا کسی دوسری صورت میں بیان کرنا ہے اس طرح سے کہ دونوں قسموں کے درمیان شباہت پائی جاتی ہو اور اس کے ذکر سے پہلا موضوع زیادہ سے زیادہ واضح ہوجائے۔(٢) مَثَل جو کچھ پوشیدہ اور نامعلوم ہے اسے آشکار کردیتی ہے اور ماہیت امور کو واضح کردیتی ہے، مسائل کا بیان امثال کی صورت میں مخفی اور پوشیدہ معانی سے پردہ اٹھادیتا ہے اور مبہم اور پیچیدہ نکات کو واضح کردیتا ہے۔ مثل پند ونصیحت کی تلخی کو کم کرتی اور مسرت وشادمانی کا باعث ہوتی ہے اورمختصر الفاظ میں بہت سے معانی کا افادہ کرتی ہے اور کنایہ کے پردہ میں مطالب کی تعلیم دیتی ہے اورنہایت سادہ، آسان نیز محسوس زبان میں عقلی پیچیدگیوں کو ذکر کرتی ہے۔(٣) بلاشبہہ عام لوگوں کے درمیان متعارف اور شناختہ شدہ تربیتی وسائل میں سے ایک ضرب الامثال، تمثیلوں اور تشبیہوں سے مناسب استفادہ کرنا ہے۔ قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پر ان مثلوں سے استفادہ کیا ہے۔(٤)
____________________
١۔ مثنوی معنوی اخلاقی داستانیں اسی طرح کی ہیں۔
٢۔''المثل عبارة عن قوله فی ش ء یشبه قولاً فی شء آخر بینهما مشابهة لیبین احدهما الاخر ویصوره'' المفردات راغب۔
٣۔ اصول وروش ہای تربیت در اسلام، ص ٢٦٢ ملاحظہ ہو۔
٤۔ ٢٤٥ضرب المثل اور ٥٣ مورد تمثیل ہاے دینی۔