6%

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''قرآنی مثلیں بہت سے فوائد کی حامل ہیں لہٰذادقیق انداز میں ان کے معنی کے بارے میں غور وخوض کرو اور (بغیر توجہ کے) ان سے گزر نہ جائو''۔(١)

قرآنی مثالیں، جیسے دنیا کے سرانجام کی تشبیہ سرسبزگھاس کے پژمردہ ہونے سے، کفار کے اعمال کی تشبیہ سراب سے، منافقین کے بارے میں متعدد تشبیہیں، اُس بوڑھی عورت سے تشبیہ جو دھاگا کاتتی ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب مثالیں قابل غور ہیں۔ قرآنی مثلیں تربیت کے لحاظ سے درج ذیل فوائد کی حامل ہیں:

تعلیم عبرت، تفکر وتامل، تشویق وترغیب، تنبیہ وآگاہی، تبیین وتقریر، پند ونصیحت اور پیچیدہ مسائل کو ذہن سے قریب کرنا۔

مثالوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے سطحی معانی میں توقف نہیں کرنا چاہئے بلکہ تعقل وتفکر کے ساتھ اُس کے عمیق اور گہرے معانی میں ڈوب جانا چاہئے۔ تربیت کے لحاظ سے بھی مربی کو یہ نہیں چاہئے کہ مثل میں موجود تمام نکتوں کو تربیت پانے والے کے لئے واضح وبیان کرے بلکہ اسے موقع دے کہ وہ اپنی تلاش وکوشش سے زیادہ سے زیادہ معانی کشف کرے۔

د۔سوال وجواب:

کبھی ایک سوال کا ذکر مطلب کی طرف افراد کی توجہ اور حواس کے یکجا ہونے کا باعث ہوتا ہے، سوال کا ذکر کرنا اس بات کاباعث ہوتاہے کہ مخاطبین کی تحقیق وتلاش کی حس بیدار ہو اور جواب دہی کے لئے ضرورت محسوس کریں، بالخصوص اگر سوال اس طرح پیش کیا جائے کہ ان کے لئے نیاپن اور جاذبیت رکھتا ہو اور اس آسانی سے جواب نہ دے سکیں، ایسی صورت میں دل وجان سے قائل کی طرف آئے تاکہ اس کی باتیں سنیں۔ قرآن نے بھی متعدد مقامات پر اس روش سے استفادہ کیا ہے:

(هَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِّیَة )(٢) ''کیا تمھیں ڈھاپنے والی قیامت کی بات معلوم ہے؟''۔

(اَلْقَارِعَة مَا الْقَارِعَة وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَة )(٣) '''کھڑکھڑانے والی، اور کیسی کھڑکھڑانے والی اور تمھیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی (قیامت) ہے؟''۔

____________________

١۔''امثال القرآن لها فوائد فامنعوا النظر فتفکروا فی معانیها ولا تمروا بها'' ۔

٢۔ سورہ ٔغاشیہ، آیت١۔

٣۔ سورہ ٔقارعہ، آیت ١تا٣۔