6%

٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔

٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔

٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:

پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔

اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:

''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)

____________________

١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔