6%

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا:

اخلاقی احکام اور قضیے اس صورت میں مفید ہیں جب وہ تاثیر گذار ہوں۔ اس کے علاوہ مخاطبین کے ذوق وشوق، تسلیم و رضا کو پروان چڑھائے اور ان کو ایثار و فداکاری کے لئے آمادہ کرے۔ یہ چیزیں عام ومطلق کی حقانیت اور اخلاقی اصول کی جاودانی کو قبول کرنے اور ان سے عشق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاقی نسبیت کا رجحان ان تمام امور سے ٹکراؤ رکھتا ہے اور ہر طرح کے مشترک اخلاقی اصول کی سفارشوں سے لگاؤ اور اس سے محبت کی گرمی کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔(١) جس کے نتیجہ میں تبلیغ و ہدایت اور ارشاد و تربیت بے معنی ہیں اور خدا کے نبیوں اور ولیوں کو بشر کی ہدایت کے لئے نہ کسی اجازت کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی سماجی مصلحین اپنی دعوت پر لبیک کہنے کے لئے لوگوں کے کسی معقول جواب کے منتظر رہ سکتے ہیں۔

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی:

اخلاق دین کی نظر میں ایک بلند اور وسیع مرتبہ کا حامل ہے۔ اور اتنا بلند ہے کہ اس کی نظر میںتکوین و تشریع کا اصل مقصد، اخلاق کی عالی فضیلتوں تک پہنچنا اور اسے حاصل کرنا بتایا گیا ہے۔اسی وجہ سے دین کی تمام تعلیمات میں اخلاقی باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اکثر دینی تعلیمات براہ راست اخلاقی موضوعات کے بارے میں ہوتی ہیں۔

اس حقیقت پر توجہ کر تے ہوئے اخلاقی احکام کے عدم ثبات اور تغیّر کو قبول کرنا دینی تعلیم کا عصری اور وقتی ہونا مانا جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کے کامل اور خاتم ہونے کی نفی کردی جائے۔ اس بناء پر اخلاقی نسبیت اور دین کا عالمی و جاودانی ہونے میں ٹکرائو نظر آتا ہے جبکہ کمال اور خاتمیت دین کی شان ہے۔

٤۔ اخلاقی شکّاکیت :

اخلاقی نسبیت پر اعتقاد رکھنے سے کسی اخلاقی موضوع کے سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا امکان ختم ہوجا تا ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی سے تہذیبی ماحول اور کسی خاص سلیقہ کے تحت، صداقت کے قبیح ہونے کے بارے میں کسی فیصلہ کا جتنا احتمال ہوسکتا ہے اتنا ہی حسن صداقت کے سلسلہ میںبھی ممکن ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی، واقعیت کی توصیف اور اسے بیان کرنے والے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی احکام کی ماہیت کے بارے میں اپنے نظریہ کوبیان کرنے کی حیثیت سے ہے اور اس کے مطابق اخلاقی اصول کا سالم وناسالم ہونا، انسان یا سماج کے متغیر عوامل پر منحصر ہے۔ اس بناء پر کسی اخلاقی موضوع کے بارے میں کوئی مستقل فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی اخلاقی شکاکیت ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: (نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، شمارہ: ١٣۔١٤، ص: ٣١٢)۔