٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:
اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)
ب ۔ اضداد سے استفادہ:
اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣) اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:
''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)
____________________
١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔ ٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔