مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔
حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔
ج ۔ ابتلاء اور امتحان:
''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:
١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔
٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢) ۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے(٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔
____________________
١۔''اذا هبت امراً فقع فیه فانّ شدّة توقیه اعظم ممّاتخاف منه'' ۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔
٢۔ المفردات۔
٣۔ ایضاً۔