13%

الف۔توبہ:

اپنے آپ پر نظارت کی روش میں جب بھی انسان اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہے تو عام طور پر اپنے صحیفۂ اعمال کو اخلاقی رذائل سے آلودہ دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میںاگر ان برائیوں سے الگ اورجدا ہونے کی کوئی راہ اورامید نہ ہو تو انسان بدبختی اور شقاوت کے بھنور میں مکمل طور پر پھنس جائے گا، اورنا امیدی اور رذائل کے ہلاکت بار گڑھے میں گرجائے گا، اس کے علاوہ روحی اور نفسیاتی اعتبار سے گناہ کے اندر اسی حالت پیدا کرتا ہے کہ اگر رذائل نہ ہوں تو آئندہ مواقع پر اور بھی زیادہ گناہوں کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتاتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے اعمال کی غیر ارادی بنیادوں کے لحاظ سے ضروری ہے جیساکہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

''جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ ایجاد ہوجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو مٹ جاتا ہے اوراگروہ گناہ جاری رکھا تو سیاہی اس کے پورے دل کوڈھانپ لیتی ہے اور کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے''۔(١)

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''گناہ'' کے مختلف مفاہیم ہیں:

نافرمانی اور بے وفائی کا احساس، اپنے آپ کو صدمہ پہنچانا، روح کو خراش لگانااور سزا کا مستحق ہونا۔ اگر یہ احساس گناہ انسان کی روح پر غالب آجائے اور سلسلہ باقی رہے، تو ذہنی افسردگی کا پیش خیمہ ہوگا اور انسان کو ہر قسم کی اپنی معنوی تعمیر اور اخلاقی فضائل کسب کرنے سے روک دے گا، اس وجہ سے توبہ اپنی ازسرِنو تعمیر کے لئے دوبارہ بازگشت کو کہتے ہیں، وہ تجدید اعمال کے لئے صاف وروشن نامۂ اعمال کے ہمراہ رحمت خداوندی کی امیدوار، منقلب، پختہ ارادہ کی مالک تعمیر کرتی ہے اور یہ توبہ وہی خدا کا لطف اور اس کی رحمت ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ کے بقول ''توبہ اﷲ کی رسی اور عنایت ربوبی ہے، لہٰذا بندے ہمیشہ توبہ کی کوشش کریں اور ہر گروہ کا ایک خاص توبہ ہے......''۔(٢)

____________________

١۔''اذا أذنب الرجل خرج فی قلبه نقطة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتّی تغلب علی قلبه فلا یفلح بعدها ابداً' '(کافی ج٢ص ٢٧١)۔

٢۔ مصباح الشریعة ص ٩٧۔