ج۔ سو ا لا ت اور جوابات
اس بحث کی تکمیل کے لئے مناسب ہے کہ ایسے بعض شبہات جو ممکن ہے اسی طرح بیان کئے جاتے ہوں، سوال و جواب کی شکل میں تحقیق کی جائے۔ اس مربوط واصلی سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
پہلاسوال:
اگر اخلاقی اصول، مطلق اور جاودانی ہوتے ہیں تو استثنائات کے لئے کیا توجیہ اور تفسیر کی جا سکتی ہے؟
پہلا جواب:
حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی احکام استثنا نہیں ہوتے اور جس وقت اخلاقی حکم کا موضوع محقق ہوتا ہے اسی وقت اس کا حکم بھی اس کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ہاں، کبھی اخلاقی حکم کے اصل معیار میں خطا نظر آتی ہے مثلاً ہم کہتے ہیں: ' 'سچ بولنا اچھا ہے'' لیکن اگر یہ کسی بے گناہ کا خون بہنے کا سبب بن جائے یا اسلام کے دفاعی نظام کے اسرار کے فاش ہونے کا موجب قرار پائے تو ایسے موقعوں پر ''سچ بولنا اچھا نہیں ہے، ، یہاں اخلاقی حکم عمومی اور کلی قاعدوں سے جدا ہوگیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ہم نے اخلاقی حکم کے موضوع کو اس کی تما م خصوصیتوں اور قیدوں کے ہمراہ پہچنوانے میں خطا کی ہے۔پہلے والے حکم میں اس کا واقعی موضوع ' 'سچ بولنا کسی بڑی خرابی اور فساد کے بغیر مفید ہونا '' ہے(١) قطعی طور پران تمام موارد میں جہاںیہ موضوع محقق ہوتا ہے سچ بولنے کا حکم موجود رہے گا۔سچ بولنا اگر بے گناہوں کا خون بہنے وغیرہ کا سبب بنے تو یہ معاملہ اخلاقی نہیں ہے۔(٢)
دوسرا جواب:
اخلاقی اصول استثناء کو قبول نہیں کرتے ہیں۔لیکن ایسی جگہ پر جہاں غیر ضروری اور نا مناسب نتائج کا سامنا ہوتا ہے ایسی حالت میں ایک خارجی فعل، دو عنوان کا مصداق بن جاتا ہے۔جیسے پہلے جواب میں درج مثال۔ اُن دو عنوانات میںایک سچ بولنا ہے اور دوسرا بے گناہ کا قتل یا اسلامی فوج کے اسرار کا فاش کرنا۔ اس بناء پر ایک ہی عمل ایک لحاظ سے اچھا ہے اور دوسرے لحاظ سے برا۔ ایسی جگہوں پر مجبوراً ایک ہی طرف کو انتخاب کیا جائے گا۔ کیونکہ یا اس عمل کو ترک کیا جائے یا انجام دیا جائے۔ یہاں تیسری صورت ممکن نہیں ہے۔ عمل کے ترک کرنے یا انجام دینے کے انتخاب میں مجبوراً اس کے حسن وقبح کے درجات کا بھی لحاظ کرنا پڑے گا۔
____________________
١۔ اشیاء اور افعال کے ذاتی وعقلی حسن وقبح کو قبول کرنے کی بناء پر۔ جسے شیعہ اور معتزلہ قبول کرتے ہیں۔انسان کا اختیاری عمل، مصلحت کی بناء پر اچھااور مفسدہ وفساد کی بناء پربرا ہوجاتا ہے۔البتہ مصلحت اور مفسدہ کی تشخیص میں اور ان کی اہمیت کے توازن میں عقل کے علاوہ وجدان، فطرت اور وحی بھی بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ ٢۔ ر جوع کیجئے: مصباح یزدی، محمد تقی: دروس فلسفہ ء اخلاق، ص: ٤١، ١٨٧تا ١٨٩۔