۲:۔ ایمان کی تربیت
ایمان ایک قلبی حالت اور روحی اثر ہے کہ جس کی تاثیر افکار، احساسات اور اعمال میں آشکارہو تی ہے۔ حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں:
''الایمان ما کان فی القلب والاسلام ما علیه التناکح والتوارث ''(١)
''ایمان وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے اور اسلام وہ ہے جو جس پر تناکح وتوازث ہوتا ہے''۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا:
''الایمان قول مقول وعمل معمول وعرفان العقول ''۔(٢)
''ایمان وہ قول جو بولا جاتا ہے اور وہ عمل ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور عقلوں کی معرفت ہے''۔
خداوندمتعال روز قیامت، ملائکہ یا تدبیرعالم کے مامورین پر ایمان رکھنے سے (کہ یہ سب ایمان بالغیب کے مصداق ہیں) انسان کی معرفتی، عاطفی، اور اخلاقی جہات تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس نظر جسمانی، کمّی اور فائدہ طلب محاسبات کے حدود میں محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ اُس کی یہ فکر، یہ نظر اورخدا شناسی اس کی باطنی استعدادوں کی بالیدگی کا سبب بنتی ہے اور اس کے وجود کی وسعت کو کمال مطلق کے امتداد میں محقّق بناتی ہے۔ ایک بے کراںاور لامتناہی علیم وقدیر وجود مقدس کے سامنے حضور کاا حساس انسان کے اخلاقی کنٹرول اور تربیت میں ایک اہم عامل ہوگا، لہٰذا ایمان کی پرورش انسان کے پورے وجود میںبہت سے قوی وسائل انسان کے پورے وجود میں(جوکہ وہ اختیار میں رکھتی ہے، اخلاقی تربیت کو آسان بنادیتی ہے، بلکہ خود انسان کے وجود میں مکارم اخلاق کو پیدا کرتی ہے۔
____________________
١۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٠۔
٢۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٢۔