وہ دینی تعلیمات اوردستورات کہ جو ایمان کی تربیت کے لئے مد نظر قراردئے گئے ہیں، اوّل تین راستوں سے افراد معاشرہ کی ہدایت اورسماج کے اخلاقی اصلاح کے عنوان سے بہترین استفادہ کیا ہے۔ ایمان کی پرورش کے وہ اسلوب جو دینی معارف کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
الف۔عبادت:
عبودیت تذلل اورخاکساری کے اظہار کے معنی ہے کہ جو فارسی میں ''بندگی ''کے معنی میں ہے اور عبادت اس سے بھی بالاتر چیز ہے، یعنی انتہائی درجہ تذلل، اسی وجہ سے خدا کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ہے۔(المفردات) اس بناپر مختلف عبادی اعمال، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی تذلل وبندگی کا اعلان ہے۔ سید قطب اس مطلب کی اچھی طرح منظر کشی کرتے ہیں:
نماز، روزہ، زکات، حج اور تمام تعبدی شعائر واعمال ایک کنجی کے سوا کچھ نہیں ہیں، وہ صرف ایسی کنجیاں ہیں جن کے ذریعہ اپنے لئے عبادت کے دروازوں کو کھول سکیں، یا ایسے منازل اورقیامگاہ ہیں کہ طریق عبادت کے راہی اورمنزل معبود کے سالکیں راستہ میں اُس قیام گاہ میں کچھ دیر قیام کرکے توشۂ راہ حاصل کرتے ہیں، تازہ دم ہوتے ہیں پھر کافی زادۂ راہ کے ساتھ اپنی راہ طے کرتے ہوئے معشوق کی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں، یہ راہ وہی عبادت ہے لہٰذا جو کچھ اس راہ میں واقع ہو، عبادت سے لے کر روز مرہ کی زندگی کے امور یا غور وخوض اور ادراک تک جب تک کہ ہدف خدا ہو، وہ سب کا سب عبادت ہے۔ یہ اساس اور بنیاد اُس وقت زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے جب حقیقت اور عملی اعتبار سے (نہ کہ صرف زبان ) سے گواہی دے کہ کوئی بھی مقام اور شخصیت نیز مظہر قدرت عبادت کے قابل نہیں ہیسوائے اس خداوند واحد و خالق کے کہ جو حکیم وعلیم ہے۔(١)
اس طرح کی عبادت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کرکے ایمان کی پرورش کا باعث ہے اور اس کانتیجہ وثمرہ اخلاقی تربیت اور انسانی فضائل ہیں۔
''اے لوگو! تم سب اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو خلق کیا ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو، شاید تقویٰ اختیار کرو''۔(٢)
____________________
١۔ روش تربیتی در اسلامص٣٩۔
٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت ٢١۔