20%

ایک دوسرا نکتہ جو عبادت میں قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ عبادت کا ہدف خداوند عالم کے سامنے صرف اطاعت ہے اور ''تعبد''کے معنی بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر باوجودیکہ ہم نہیں جانتے کہ نماز صبح دو رکعت کیوں ہے اور بلند آواز سے ہمیں پڑھنا چاہئے، تو ہم صرف اُس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ فضل بن شاذان حضرت امام علی رضا ـ سے نقل کرتے ہیں: ''اس لئے کہ اُسے فراموشی کے حوالے نہ کردیں، اس کے مراتب ادب کو ترک نہ کریں، اس کے امر ونہی سے غافل نہ ہو جائیں....''۔(١) اسی وجہ سے (فرمان خدا کی اطاعت) اﷲ کے حدود حلال وحرام کی رعایت اورخدا کے فرائض اور واحبات کی مراعات کرنا عبادت کا اہم حصّہ شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: عبادت کے دس جز ہیں کہ اس کے نو جز حلال کے سراغ میں جانا ہے۔(٢) خداوندسبحان ارشاد فرماتا ہے: ''اے اولاد آدم! جو کچھ ہم نے تم پر واجب کیا ہے اُس پر عمل کرو تاکہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جائو''۔

ب۔ذکر:

ذکر ''یاد آوری'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح کسی چیز کے معنی کا یاد رکھنایا اُس کا حاضر ہونا ذکر کہلاتا ہے۔ دقیق تر تعبیر میں کبھی ذکر سے مراد ایک نفسانی حالت ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان اُس چیز کو جس کی اس سے پہلے شناخت اور معرفت یاد رکھ سکتا ہو۔ ذکر اس معنی میں حفظ کے مانند ہے اس فرق کے ساتھ کہ ذکر اس جگہ استعمال ہوتا ہے کہ کوئی بات حافظہ کے خزانہ میں موجود ہونے کے علاوہ اس کی نظر میں بھی حاضر ہو، کبھی سے مراد دل وزبان پر کسی مطلب کا حاضر ہونا ہے اور اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ذکر کی دوقسم ہے قلبی اور لسانی۔(٣) اس بنا برایمان کی تربیت کا ایک دوسرا شیوہ ذکر ہے کہ جو خدا کے قطعی اور یقینی حضورکی انسان کے نزدیک تقویت کرتا ہے۔ زبانی اذکا ر جو اسلامی تعلیمات میں وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہیں کہ وہی حضور قلبی کی حالت انسان میں ایجاد کریں ہے۔البتہ اذکار کی تربیتی تاثیرسے بھی غافل نہیں ہو نا چاہئے ؛کیونکہ معین باتوں کو زبان پر لانا تلقین نفس سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اُس کے متقضیٰ سے انسان کے ضمیر میں ایک تبدیلی ایجاد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے غیرہو شیار ضمیر کی راہ ورود کے سلسلے میں ذکر کیا ہے، یہ شیوہ اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ مور دتوجہ واقع ہوا ہے اور ہماری پوری زندگی خواب وبیداری، کام اور راحت، خوشی اور غم سب کے وقت خدا پرستانہ اذکا ر اور تلیقنات سے بھری پڑی ہے جو ہم میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ علل الشرائع ص٢٥٦۔ ٢۔ بحار الانوار ج١٠٣ ص١٨۔ ٣۔(مفردات )