20%

رہنے والے لوگوں کے قولی یا عملی توافق سے وجود میں آتی ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف معاشرہ کے لوگوں سے وابستگی متفاوت اور نسبی ہے البتہ اُن کا نسبی ہونا اخلاقی احکام نسبیت کا سبب نہیں ہے۔(١)

چوتھا سوال:

ادیان و مکاتب اور جوامع کے درمیان ایسے موضوعات جو ذاتی طور پر علم اخلاق کے دائرہ میں داخل ہیں اُن کے سلسلہ میں موجود عقیدوں کے درمیان اختلاف، اخلاقی احکام میں نسبیت کی دلیل ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمان نماز پڑھنے کو واجب اور سور کے گوشت کھانے کو حرام جانتے ہیں، جبکہ اس سلسلہ میں عیسائیوں کا عقیدہ دوسرا ہے۔ یا یہ کہ عیسائیوں کے درمیان چند بیویوں کا رکھنا حرام اور اخلاق کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے درمیان محدود طور پر مباح ہے اور اخلاق کے خلاف نہیں ما نا جاتا ہے۔

جواب:

کسی واقعیت اور حقیقت کی معرفت میں اختلاف یا ان کو پہچاننے کے ذریعوں، یا کسی بات کے صدق وکذب یا اخلاقی اچھائی یا برائی کے معیار کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف، واقعی امور کی نسبیت کی دلیل نہیں بن جاتا۔اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد کہ اخلاقی فضائل و رذائل جن کی جڑیں عالم عینی میں ہیں اور ان کی حقیقتیں ثابت اور انسان وجہان میں تکوینی اور وجودی آثار رکھتی ہیں ان کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف کا موجود ہونا، ثابت حقیقتوں کے بدلنے اور ان کے نسبی ہونے کا سبب نہیں بنتا اور نہ ہی وہ اخلاقی حقائق کی تغیّر کا نتیجہ ہوتا ہے، بلکہ ان کو پہچاننے میں بعض لوگوںکے خطا کرنے کی دلیل ہے۔جیسے وہ خطائیں جو مادی اور جسمانی حقیقتوں کو پہچاننیمیں انسان سے سر زد ہوتی ہیں۔ حقیقت میں جو کچھ اخلاقی احکام کے اسباب کے سلسلہ میں بیان ہوا، اس پر توجہ کرتے ہوئے دیکھا جائے تو اس طرح کے اختلافات یا انسان کی کمال مطلوب کے صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں یا انسان کے فعل کے سلسلہ میں کافی دقت کے باوجود غلطی ہو جانے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ یعنی وہ عمل جو حقیقت میں اس مقصد کے خلاف ہے، اس کے مطابق مانا جاتا ہے اور اس کے بر خلاف بھی ہوتا ہے۔اس طرح اخلاق کے جاودانہ اصولوں کو عقلی اور عقلی طور پر بیان اور سوالوں کا جواب دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جاودانہ اخلاق کے نظریے، ایسے نظریے ہیںجو قابل قبول اور شائستہ ہیں۔(٢)

____________________

١۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: اسلام و مقتضیات زمان ج: ٢، ص: ٢٤٨ تا٢٥٨ کی طرف ر جوع کیجئے۔٢۔ البتہ جاودانہ اخلاق کے دفاع کے لئے دوسرے راستوں کو بھی طے کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مشہور اخلاقی اصولوں کی جدا جدا تحقیق کی جائے تا کہ ان کا مطلق ہونا ثابت ہو جائے۔ (ر جوع کیجئے: استاد مطہری، مرتضیٰ، سیری د ر سیرئہ نبوی، ص: ٩١ تا ١١٦)۔