ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار
جیسا کہ علم اخلاق کی تعریف سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاق انسان کے اُن اختیاری اعمال اوراس کی اُن قدرتوں اور صفتوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو اختیاری مبدا ٔکی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ چیزیں جو اس کی آزادی اور اختیار سے باہر ہیں اصولی طور پر وہ اخلاقی تحسین وتقبیح اور فیصلہ کے دائرہ سے باہرہیں اوروہ اخلاقی حکم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اوروہ اس کی مستحق بھی نہیں ہیں۔
انسان دو طرح کے افعال انجام دیتا ہے: ایک وہ افعال ہیں جو فطری اور اضطراری (بے اختیاری) طور پر انجام دئے جاتے ہیں اور دوسرے وہ افعال ہیں جواختیاری اور ارادی طور پر انجام دئے جاتے ہیں۔
فطری اور اضطراری افعال انسان کی طبیعت سے صادر ہوتے ہیں اور ان کے انجام میں علم وآگاہی کا دخل نہیں ہوتا ہے جیسے سانس لینا۔ انسان کے ارادی اور اختیاری افعال اس کے علم وآگاہی کے ذریعہ صادر ہوتے ہیں۔ یعنی انسان ابتدا میں اس عمل کو پہچانتا ہے اور اسے دوسرے تمام اعمال سے جدا کرتا ہے، پھر اسے نفس کے کمال کا مصداق سمجھتا ہے۔ اس کے بعد اسے انجام دینے کے لئے اقدام کرتا ہے۔(١)
البتہ جس طرح فلسفی اور کلامی بحثوں میں ثابت ہوچکا ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ان کاموں کی نسبت جوعلم وارادہ سے انجام دیتا ہے، اختیار تکوینی رکھتا ہے۔ ہاں یہ جاننا چاہئے کہ آدمی کا اختیار مطلق نہیں ہوتاہے، کیونکہ اس کااختیار سلسلہ ٔ علل کے اجزاکاایک جز ہے۔ خارجی اسباب وعلل بھی اس کے اختیاری افعال کے محقق ہونے میں دخیل ہیں۔ مثلاً تغذیۂ انسان، اس کے ارادہ وخواہش کے علاوہ غذا کے خارج میں موجود ہونے اور اس تک دسترسی و کھانے کی قابلیت و صلاحیت اور قوۂ ہاضمہ کی سلامتی اور دسیوں بلکہ سیکڑوں ایسی علتیں ہیں جو اس کے اختیار سے باہر ہیں، ان علتوں کے سلسلہ میں خدا کی مرضی و ارادہ کی بھی ضرورت ہے، یہ ایسی حالت میں ہے کہ انسان کے ارادہ کی بقا بھی اس کی مرضی سے وابستہ ہے۔(٢) اس بنا پر انسان کے ارادہ کی آزادی، اس کے ارادی افعال کے دائرہ میں بھی محدود اور مشروط ہوتی ہے لیکن اس کے عمل کی نسبت اخلاقی تعریفیں اور مذمتیں اس کے اختیاری فعل کے دائرہ کے لحاظ سے محدود ہیں۔
____________________
١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی ، المیزان، ج١، ص ١٠٦،١٠٧۔
٢۔ ایضاً، ج١٦، ص٦٧۔