13%

یا اپنی روزانہ کی مالا مال آمد کی کثرت سے مست ہوجاتا ہے، یا اپنے عزیزوں سے ملاقات کے شوق وولولہ کی خاطر ناگزیر ہوکر خودسے متعلق دوسروں کی بداعمالیوں کو معاف کردیتا ہے اور بذل وبخشش سے کام لیتاہے۔اس طرح کا جبر نفسیاتی آزادی اور اختیار کے مقابلہ میں ہے۔ علم نفسیات میں، جبر واختیار کا اس طرح سے معنی کرنا زیادہ رائج ہے۔

٥۔سماجی جبر:

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی اور سماجی حالات، آداب وتہذیب اس کی رسموں اور طور طریقوں کی وجہ سے انسان خود سے ایک خاص فعل کو ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور مجبوراً بعض اعمال کو ترک کردے۔ جیسے ہمارے سماج میں ایک بازاری دوکاندار پر یہ سماجی دبائو رہتا ہے کہ عاشور کے دن وہ اپنے کار وبار کو بند کردیتا ہے ، اگرچہ اس کی مرضی نہ بھی ہو۔ یا اجتماعی تحولات وتعمیرات کے موقع پر جو صنعتی ترقی کی بنا پر ہوتے ہیں، انسان مجبور ہے مٹرو سے اُترتے وقت تکلفات کونظر انداز کردے اور اس کے دروازوں کے بند ہونے سے پہلے مختصر وقت میں ہی اس سے باہر آجائے۔ سماجی آزادی اور اختیار، اس طرح کے جبر کے مقابلہ میں ہے۔ اجتماعی اور سماجی علوم میں جبر کا یہ مفہوم وسیع پیمانہ پر مستعمل ہے۔

کلمۂ جبر و اختیار کے مشہور طریقۂ استعمالات کی اجمالی شرح کے بعد اب ہم جبر واختیار کے نوعی مفہوم کو جو اخلاقی عمل کارکن ہے، آسانی سے جان اور سمجھ سکتے ہیں۔ کسی عمل کوجو چیزعلم اخلاق کی عدالت میں حاضر کرتی ہے وہ فلسفی مفہوم میں عمل کا اختیاراورآزادہونا ہے۔ فلسفی وتکوینی آزادی اور اختیار، اعتباری جبر جیسے حقوقی واخلاقی جبر سے مغایرت وبے گانگی نہیں رکھتا ہے اور اخلاقی یا حقوقی دستوروں کی موجودگی کسی خاص فعل سے متعلق انسان کی تکوینی آزادی اور اختیار کو سلب نہیں کرتی ہے۔ اُسی طرح جیسے اکراہ واجبار واضطرار، فاعل کی تکوینی آزادی اور اختیار سے ٹکرائو نہیں رکھتے ہیں۔(١)

اس طرح وہ چیزیں جو کبھی نفسیاتی یا سماجی جبر کے نام سے جانی جاتی ہیں، ہرگزتکوینی وفلسفی آزادی سے مغایرت نہیں رکھتی ہیں۔ ہاں، سبھی اخلاقی یاحقوقی اوامر ونواہی اور نفسانی اور سماجی عوامل کسی عمل کے انجام یا ترک سے متعلق، انسان کے عزم وارادہ کے پیدا ہونے میں اثرانداز ہوسکتے ہیں اوربہت سی جگہوں پر ایسا ہوتابھی ہے لیکن یہ دخالت وہیں سے گذرتی ہے جہاں انسان کی تکوینی آزادی اور ارادہ وجود میں آتاہے اور یہ کبھی انسان کو حقیقی لحاظ سے مجبور اور مسلوب الاختیار نہیں کرتی ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی المیزان، ج١، ص١٠٧۔