6%

کوئی منفی مقصد بھی نہیں رکھتے ہیں یعنی دین حق اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی کے مقصد سے انجام نہیں دیتے اور فاعل انھیں انجام دینے کے لئے مادی اور حیوانی ضرورتوں کے پورا کرنے سے بالاتر مقصد دکھاتا ہے یعنی اس کا عمل، انسانی احساسات وعواطف کی خاطر انجام پاتاہے (جیسے کسی کو معاف کردیتا ہے اور سخاوت کو ظاہر کرتا ہے اس جیسے دوسرے اعمال) اگرچہ انسانی نفس کی بلندی وتکامل کے لئے ضروری شرطیں نہیں رکھتے اور اس کے لازمی نصاب تک نہیں پہنچتے لیکن وہ اس کے لئے مقدمہ فراہم کرتے ہیں یعنی انسان کی روح وجان کو معنوی سفر طے کرنے کے لئے آمادہ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں کی بناپر اُخروی سزائوں کے رفع ہونے یا اُن میں تخفیف ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور اگرچہ لازم شرطوں کے نہ ہونے کی بناپر بہشت میں داخل نہیں ہوگا اوراسے ابدی سعادت میسر نہیں ہوگی لیکن مطلق ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہ ہو''۔(١)

٢۔فعلی اور عینی عنصر

اخلاقی عمل کے لئے ان شرطوں کے علاوہ جو فاعل کے ذریعہ ان کی انجام دہی میں ہونی چاہئے، لازم ہے کہ وہ عمل فی نفسہ اورذاتی طور پربھی نیک، اچھا اور پسندیدہ ہو۔

اسلامی علوم میں رائج تعبیر کے مطابق اُسے حُسن فعلی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں یہ حُسن فاعلی کے مقابلہ میں ہے جس کے بارے میں عنصر فاعلی کے عنوان کے تحت اس کتاب میں گفتگو ہوئی ہے۔

اس سوال کے بارے میں کہ کیا کوئی عمل ذاتی طور پر نیک اور شائستگی کا حامل ہے یانہیں ؟ اس سے پہلے اس سلسلہ میں اجمالی طور پر گفتگو ہوچکی ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تحقیق اورمعلو مات کے لئے اس سے مربوط منابع ومصادر میں جستجو کرنی چاہئے(٢) لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ اس عمل کا معیار اور اس کی نشانی انسان پر منحصر ہیں اور انھیںنشانیوں کی بنیاد پر اُسے نیکی اور برائی سے متّصف قرار دیاجاتاہے اور وہ ثواب یا عقاب کا مستحق ہوتا ہے اور محاسبہ وآزمائش کی بنیاد پر انسان خدا کے نزدیک جگہ پاتاہے۔ جب کہ اگر خارجی عمل پر اس کے علائم سے ہٹ کر اس پر توجہ کی جائے تو صرف ایک بدنی حرکت ہوگی اور وہ حرکت باقی تمام حرکتوں کی طرح نہیں ہوگی اور اس کی بہ نسبت اچھائی اور برائی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔(٣)

____________________

١۔ ر۔ک مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق درقرآن، ص١١٧١،١٧٢۔

٢۔ سبحانی، جعفر: حسن وقبح عقلی، پایہ ہائے جاودان اخلاق کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج١٦، ص٨٢۔