6%

فرائض سے متعلق علم یااسے حاصل کرنے کے امکان کو اخلاقی ذمہ داری کے لئے ایک شرط کیوں مانا گیاہے؟

علم کی شرط اور اس کی موجو دگی کی ضرورت کے سلسلہ میں اس کیوں کا جواب دینے کے لئے فطری ، وجدانی، عقلی وعقلائی اور دینی لحاظ سے متعدد دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں:

پہلی دلیل :

انسان کا سالم وجدان کسی انسان کے لئے کیفر اورسزاکے اعلان وابلاغ کے بغیر اور اس وقت تک پسند نہیں کرتا جب تک وہ اپنے فریضہ سے متعلق علم کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔(١)

یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہے کہ یہ شرط حتّیٰ اس نظریہ کی صورت میں بھی قابل قبول ہے کہ بدلہ اور سزاکو اخلاقی عمل کا طبیعی نتیجہ مان لیں، کیونکہ وہ لوگ بھی جو عمل اور بدلہ کے درمیان قراردادی رابطہ کی نفی کرتے ہیں اور تکوینی رابطہ کو قبول کرتے ہیں عمل کا لحاظ اس کے معنوی عناصر کے ساتھ کرتے ہیں نہ کہ فقط مادی عنصر کے ساتھ۔ یعنی اخلاقی عمل اس کے تمام عنصروں، منجملہ ان کے اس کا مادی پیکر کے ساتھ، فاعل کے مقصد اور نیت اور اس کے آگاہ ہونے اور نہ ہونے کے نتیجہ میں بدلہ اور کیفر کی صورت میں نتیجہ دیتاہے اور یہ فقط اس کے مادی پیکر میں نہیں ہے۔

دوسری دلیل:

عقل، فریضہ سے متعلق علم وآگاہی کو فریضہ کی انجام دہی کے لئے تکوینی اور فلسفی شرط کے طور پر مانتی ہے اور اس بنا پر اس کے فقدان کی صورت میں فریضہ کی انجام دہی کو محال جانتی ہے۔ کیونکہ فرائض سے متعلق جہل کی حالت میں فریضہ سے متعلق پابندی کے لئے فاعل میں کوئی مقصد اور اسے تحریک کرنے والی کوئی چیز موجود نہ ہوگی اس طرح مقصد کے بغیر فعل کا صادر ہوناعقلی طور پر محال ہے(٢) اس کے علاوہ عقل اصولی طورپر انسان کی جواب دہی، بازپرس اور سزائوں کو مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) اوران حالات کی بناپر جن میں انسان نے اپنے اخلاقی فرائض سے آگاہی کے لئے پوری کوششیں کی ہیں، برا، ناپسند، اور حقیقت میں تشریعی عدالت کے خلاف جانتی ہے(٣) عقل کے اس فیصلہ کو علم اصول کے علماء قاعدہ ''قبح عقاب بلابیان'' کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔

____________________

١۔ رک۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول، ص: ٣٤٣۔

٢۔ میرزا نائینی: فوائد الاصول (تقریر شیخ محمد علی کاظمی) ، ج٣، ص٣٦٥۔٣٧١۔

٣۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول۔