تیسری دلیل:
عقلائی اور عرفی وجدان، مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) کے ترک کرنے پر سزاکا مستحق نہیں جانتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ سماج کے عقلمند لوگ، اپنے ماتحت رہنے والوں کو اس دستور کی بنا پر جو ان کے لئے اعلان نہیں ہوا اوران تک نہیں پہنچا ہے یا جس کی دستیابی میں ان لوگوں نے کوتاہی اور تقصیر نہیں کی ہے، جواب دہی اور سزا کا مستحق نہیں جانتے ہیں اور اُن لوگوں کو سزا دینا غیر مناسب اور برا مانتے ہیں۔
چوتھی دلیل:
کتاب وسنت میں مذکورہ قاعدہ (قبح عقاب بلا بیان) کی تائید کثرت کے ساتھ کی گئی ہے۔ نمونہ کے طور پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیاجاتاہے:
خداوند عالم فرماتا ہے: ''ہم نے جب تک پیغمبر کو مبعوث نہیں کرتے، اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے''۔(١)
معروف تفسیروں کے مطابق پیغمبر کو (بغیر کسی مقصد کے) بھیجنا اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک ضروری علم وآگاہی کو لوگوں تک نہیں پہنچا دیا جاتا، ان لوگوں کو ذمہ دار نہیں جاناجاسکتا ہے اور سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔
دوسری جگہ پر فرماتاہے: ''خداکسی کو بھی تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اتنی جتنی کہ اسے قدرت دی ہے''۔(٢) اس آیت کے مطابق بھی انسان اسی قدر ذمہ دار ہے جس قدر اس نے کچھ حاصل کیا ہے یا حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ علم وآگاہی ہو یاقدرت واستعداد۔
پیغمبراکرم نے بھی فرمایا ہے:
''ہماری امت سے نو چیزوں (کے بدلہ) کو اُٹھا لیاگیا ہے: خطا، فراموشی، لاعلمی، ناتوانی، وہ امور جن کی خاطر قدرت نہیں ہے، وہ امور جن کو اضطرار یا اکراہ یا اجبار کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے، فال بد نکالنا، خلقت میں اور تفکّر وتدبّر میں وسوسہ پیدا ہونا اور حسد اس صورت میں کہ زبان یا ہاتھ سے ظاہر نہ ہو۔(٣)
____________________
١۔ سورۂ اسراء آیت١٥ (وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّیٰ نَبْعَثْ رَسُوْلاً )۔
٢۔ سورۂ طلاق آیت٧(لَایُکَلِّفَ اللّٰهُ نَفْساً اِلّا مَا آتَاهَا )۔
۳۔ کلینی، کافی، ج٢ ]کتاب الایمان والکفر، باب ما رفع عن الامة[ح٢۔ صدوق، فقیہہ، ج١، ص٣٦۔ خصال، ج٢، ص٤١٧۔