6%

اس حدیث میں انسان نوچیزوں سے متعلق اپنی اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی وسزا سے معاف ہوگیا ہے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ انسان ان تکلیفوں اور فرائض کے سلسلہ میں جواب دہ نہ ہوگا جن کے بارے میں علم وآگاہی نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ اس کی لاعلمی تقصیر اور کوتاہی کی بنا پر ہو، نہ کہ غلطی اورمجبوری کی بناپر۔ اس (غلطی کی) صورت میں بے خبررہنا ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے۔اس وجہ سے کہ علم کا دوام اورباقی رہنابھی اخلاقی ذمہ داری کے تحقق کے لئے مؤثر ہے اور عقلی طور پر بھولنے والے انسان کے لئے تکلیف اور ذمہ داری نہ ہونے کی دلیل کی بنا پر وہ انسان جو پہلے اپنی اخلاقی ذمہ داری سے متعلق علم رکھتا تھا لیکن اسے انجام دیتے وقت غفلت اور فراموشی کا شکار ہوگیا، اخلاقی طور پرذمہ دارنہ ہوگا۔

٤۔قدرت

اس شرط کی بنیاد پرانسان اُن چیزوں کے بارے میں جن کی پابندی کے لئے توانا ئی نہیں رکھتا اخلاقی طور پر ذمہ دارنہیں ہے۔ (خواہ وہ فعل کو انجام دینے کے لئے ہو یا ترک کرنے کے لئے) اور قیامت کے دن اس سلسلہ میں اس سے سوال وجواب نہ کیا جائے گا اور قابل توبیخ نہ ہو گا۔ اسلامی علوم میں یہ شرط ''تکلیف مالا یطاق'' کے عنوان کے تحت محال اور قبیح ہے اور یہ مسئلہ تمام لوگوں کے نزدیک مشہور، رائج اور قابل قبول ہے۔

مسلمان حکما اور متکلمین نے اس شرط کو ثابت کرنے کے لئے اس کے عقلی پہلو (یعنی یہ کہ نا قابل برداشت تکلیف اور فریضہ کی انجام دہی کا حکم دینا عدالت کے باخلاف اور ظلم کے واضح مصداقوں میں سے ہے) پر زور دینے کے علاوہ الہی حکمت اور خدا کے افعال کے بامقصد ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ خدا کے تکوینی اور تشریعی افعال کے حکیمانہ ہونے کی مصلحت کی بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اُنہیں تکلیفوں کو بندوں کے لئے مقرر کرتا ہے جن کے نتیجہ میں مقصد حاصل ہوسکے۔یہ بات واضح ہے کہ یہ مقاصد اس صورت میں قابل مقدور ہونگے کہ مقررشدہ فرائض کی انجام دہی افراد کی طاقت و توانائی سے باہر نہ ہو۔ اس بناپر ایسے امور کے لئے تکلیف معین کرنا جو انسان کے لئے غیر مقدور و ناممکن ہے، بے کار وبے فائدہ اور حکمت و مصلحت کے خلاف ہے اور اُن کا حکیم پرور دگار کی طرف سے نافذ ہو نامحال ہے۔(١)

____________________

١۔ رک۔ سبحانی ، جعفر، الہیات، ج١، ص٣٠١۔ شہیدصدر: دروس فی علم الاصول، حلقہ دوم، ص٢٣٥تا ٢٤٠۔