6%

جلدی غصہ میں آجاتا ہے یا معمولی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔خُلق پیدا ہونے کے دوسرے عوامل واسباب وراثت، تمرین و تکرار ہیں۔ مثلاًیہ کہ کوئی پہلے شجاعت والے کاموں کو تردّد اور تذبذب کی حالت میں انجام دیتا ہے پھر تمرین کی وجہ سے تدریجاً اس کے اندر شجاعت کی پائدار صفت اس طرح وجود میں آجاتی ہے کہ اُس کے بعد کسی جھجک کے بغیر شجاعت کا مظاہرہ کرتا ہے۔(١)

یہ باطنی و نفسانی راسخ صفت ممکن ہے '' فضیلت'' یعنی اچھی خصلتوںکا سبب قرار پائے اور ممکن ہے ''رذیلت '' یعنی برائی اور بدکرداری کی ہو جائے۔بہر حال اُسے خُلق کہا جاتا ہے۔

٢۔علم اخلاق کی تعریف

اسلامی علوم میں علم اخلاق کے مستند و معروف اور سب سے اصلی منابع کی طرف رجوع کرنے سے اور قرآن واحادیث میں اس کے استعمال کے مقامات پر دقت کرنے سے علم اخلاق کی تعریف اس طرح بیان کی جاسکتی ہے: علم اخلاق وہ علم ہے جو ا چھی ا و ر بری نفسانی صفات اور ان کے مطابق اختیاری اعمال و رفتار کو بیان کرتا ہے اور ا چھی نفسانی صفات کو حاصل کرنے، پسندیدہ اعمال کو انجام دینے اور بری نفسانی صفات اور نا پسندیدہ اعمال سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بتاتا ہے۔(٢)

اس تعریف کی بناء پر علم اخلاق ا چھی ا و ر بری صفات کے بارے میںگفتگو کرنے کے علاوہ ان کے مطابق انجام پانے والے اعمال و رفتار کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسانی یا عمل فضائل تک پہنچنے اور برائیوں سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔

اس طرح علم اخلاق کے موضوع کو یوں بیان کیا گیا ہے: اچھی اور بری صفات اور اعمال، اس وجہ سے کہ انسان کے لئے ان کا حاصل کرنا اور انجام دینا یا ترک کرنا ممکن ہو۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق و طہارة الاعراق، ص: ٥١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ٢٢۔

٢۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق، ص ٢٧، طوسی۔ خواجہ نصیر الدین: اخلاق ناصری: ص ٤٨۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦، ٢٧۔ صدر الدین شیرازی: الاسفار الاربعة، ج ٤، ص ١١٦، ١١٧۔