6%

چونکہ انسان کے ا چھے اور برے صفات اور اس کے طرز عمل کی بازگشت اس کی جان و روح سے وابستہ ہے اس لئے بعض اخلاقی دانشوروں نے انسانی نفس کو علم اخلاق کا موضوع قرار دیا ہے۔(١) علم اخلاق کا آخری ہدف یہ ہے کہ انسان کو اس کے حقیقی کمال و سعادت تک پہنچائے کہ یہی کائنات اور انسان کی خلقت کا اصلی مقصد ہے. اس کمال و سعادت کی واقعی تفسیر اور اس کا محقق ہونا، اس بات میں ہے کہ انسان اپنی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، نفسانی صفات اور کردارمیں الٰہی اسماء اور صفات کا مظہر بن جائے تاکہ جہاں پوری طبیعی دنیا کسی ارادہ کے بغیر، خدا کے جمال وجلال کی تسبیح میں مشغول ہے، وہیںانسان اپنے اختیار اور اپنی آزادی کے ساتھ سب سے زیادہ گویا، مقرب اور مکمل الٰہی مظہر بن کر سامنے آجائے۔

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ

اخلاقی گفتگو میں قبل اس کے کہ ا چھی ا و ر بری صفات و اعمال کے مصادیق کو معین کیا جائے اور ان کو حاصل کرنے یا ان سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بیان کیا جائے، بعض ایسے بنیادی سوالات سامنے آتے ہیں جو دوسرے اخلاقی مباحث پر مقدم ہیں اور مخصوصاً عقلی ماہیت رکھتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ سوالات مندر جہ ذیل ہیں:

''اچھے'' اور' 'برے '' جیسے الفاظ اور عناوین کا مفہوم کیا ہے ؟

اخلاقی مفاہیم کی ماہیت و حقیقت کیا ہے ؟

اخلاقی قضیوں کی زبان، انشائی ہے یااخباری ؟

صحیح یا غلط اخلاقی قضیوں کا مبدأ اور معیار کیا ہے ؟

کسی اچھی یا بری صفت یا رفتار کا معیار کیا ہے ؟

آیااخلاقی قضیے مطلق (عالمی اور دائمی) ہیں یا نسبی(زمانی و مکانی ہیں) ؟

اخلاقی ذمہ داری کی حدیں اور شرطیں کیا ہیں ؟

اخلاقی مباحث وتحقیقات کا وہ حصہ جو اِن بنیادی سوالوں کا جوابدہ ہے اسے فلسفۂ اخلاق کہتے ہیں۔ اگر چہ اس کے مباحث کی ماہیت حتمی اور ہمیشہ عقلی نہیں ہوتی ہے، خاص طور سے فلسفۂ اخلاق کے جدید مکاتب فکر میں زبان و ادب کے لحاظ سے بھی (پہلے سوال کے مانند) گفتگو ہوتی ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦۔