دو۔ بصیرت:
قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہورہا ہے: '' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، ،(١) دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:
'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔، ،(٢) ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔(٣)
تین۔ خدا پر بھروسہ:
خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔، ،(٤)
چار۔ دنیوی برکتیں :
قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔، ،(٥)
یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔
____________________
١۔ سورئہ انفال، آیت: ٢٩۔ ٢۔ سورئہ نمل، آیت: ٤۔٣۔ علامہ طبا طبائی: المیزان، ج: ١٥، ص: ٣٤۔ ناصر مکارم شیرازی: تفسیر نمونہ، ج: ٧، ص: ٤٠ کی طرف رجوع کریں۔
٤۔ نہج البلاغہ، حکمت: ٣١٠۔٥۔وَ لَو اَنَّ اَهلَ القریٰ آمَنُوا وَالتَّقُوَا لفَتَحنا عَلَیهِم بَرکات مِنَ السّمائِ وَ الاَرضِ ( سورئہ اعراف، آیت: ٩٦)۔