6%

لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔(١)

اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔(٢)

دو۔ شک وتردید:

ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔مولائے متقیان حضرت علی ـارشاد فرماتے ہیں:

''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا'' (٣)

(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات ، ج: ١، ص: ١١٦۔

٢۔ مفید: اختصاص'ص: ٢٢١۔

٣۔ کلینی: کافی'ج: ١'ص: ٤٨' ح: ٦۔