6%

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔