زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن
زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن
ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن
٭
گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی
انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن
٭
نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے
ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟
٭
ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں
جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن
٭
خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ
وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن
٭
خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی
ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن
٭
مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے
ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن
٭٭٭