جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے
جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے
آسماں سے چلیں نور کی ڈالیاں پھر جہاں در جہاں پھول کھلنے لگے
٭
ایک پر نور قندیل چمکی ہے پھر میرے احساس میں میرے جذات میں
آنکھ پرنم ہوئی ہونٹ تپنے لگے روح میں جاوداں پھول کھلنے لگے
٭
ان کی رحمت سے پر نور سینہ ہوا مجھ گنہ گار کا دل مدینہ ہوا
دھڑکنیں مل گئیں میرے افکار کو سنگ کے درمیاں پھول کھلنے لگے
٭
آپ آئے تو تہذی روشن ہوئی اور تمدن میں اک انقلا آگیا
آدمیت کو انسانیت مل گئی گلستاں گلستاں پھول کھلنے لگے
٭
آس تاریکیوں میں ھٹکتا رہا، شکر صد شکر اے دامن مصطفےٰ!
تو ملا تو قلم کو ملی روشنی اس کی زیر زاں پھول کھلنے لگے
٭٭٭