میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے
میں غریب سے ھی غری ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے
اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے
٭
تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں
تیرے وصف کیا میں کروں یاں تیری ات ات کمال ہے
٭
میں ہوں ے نوا تو ہے ادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا
میں ہوں ایک ھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے
٭
تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ ھی گھر تیرا وہ ھی گھر
جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال ہے
٭
تیری ذات عالی شہ عر کہاں میں کہاں یہ مری طل
جو ملا، ملا وہ ترے س مرا اس میں کیسا کمال ہے
٭
نہیں تیرے عد کوئی نی ہوئی ختم تجھ پر پیمری
تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے
٭
میں یہ کیوں کہوں کہ غری ہوں شہ دوسرا کے قری ہوں
میں تو آس روشن نصی ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے
٭٭٭