سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے
سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زاں سے کھرنے لگے
مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے
٭
یہ تو ان کی عنایات کی ات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے
جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس کے دامن میں تارے اترنے لگے
٭
یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ دوسرا
تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں ھرنے لگے
٭
قط و ادال غوث و ولی متقی س کی محسن ہے نورِ تجلی تیری
روشنی تیرے کردار کی پا کے س سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے
٭
عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں
ہو گئی جن کے دل کو صارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے
٭
کچھ عج وضع سے کر رہے ہیں سر تیرے عشاق س اپنے شام و سحر
جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے لگے
٭
اے خدا آس کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے س کے قل و نظر
ے سہاروں کو تسکین جو خش دے غم کے ماروں کے جو زخم ھرنے لگے
٭٭٭